لندن: آج ہوائی جہازوں میں کیا ہوتا ہے۔ عملہ مسافروں کے ساتھ کیا کچھ کرتا ہے اور عملے کے ساتھ ایئر لائنز اور ایئر پورٹ انتظامیہ والے کیا کرتے ہیں۔ یہ اکثر لوگ جانتے ہوں گے لیکن 80 کی دہائی میں یہ سب کیسا ہوتا تھا؟ یہ بہت سے لوگ نہیں جانتے۔
اب اس دور میں ایئرہوسٹس کی نوکری کرنے والی ایک خاتون نے اس وقت کی ایسی کہانیاں سنا دی ہیں کہ آج کسی کو یقین نہ آئے۔ میل آن لائن کے مطابق گریچن ریان نامی اس خاتون نے بتایا ہے کہ اس نے 1983ء میں ساﺅتھ افریقین ایئرویز میں ایئر ہوسٹس کی نوکری شروع کی۔ اس وقت اس کی عمر 22 سال تھی۔ اس وقت ہر پرواز کی روانگی سے پہلے تمام ایئرہوسٹسز کا وزن کیا جاتا تھا اور جس کا وزن مقرر حد سے زیادہ ہوتا اسے وارننگ کے ساتھ واپس بھیج دیا جاتا اور اگر وہ دوبارہ وزن کم کر کے نہ آتی تو اس کی نوکری جانے کا بھی خطرہ ہوتا تھا۔ گریچن ریان نے مزید بتایا کہ اس وقت جہازوں میں سگریٹ اور شراب وغیرہ پر کوئی پابندی یا حد مقرر نہیں تھی۔ چنانچہ چین سموکرز ہمارا جینا حرام کیے رکھتے تھے۔ خاص طور پر جب طویل پروازوں میں سگریٹ نوشوں کو نو سموکنگ والی جگہ پر سیٹیں دے دی جاتی تھیں تو وہ بہت تنگ کرتے تھے۔ ایک بار ایسے ہی ایک چڑچڑے شخص کو میں نے سگریٹ پینے سے روکنے کی کوشش کی جو پے درپے سگریٹ پی رہا تھا اور باقی مسافر اس سے عاجز آ چکے تھے۔ میں نے جب اسے منع کیا تو اس نے کہا کہ میں سگریٹ تمہاری آنکھ میں بجھا دوں گا۔اس دور میں پائلٹ سیڑھیوں کے پاس کھڑے ہو کر جہاز میں سوار ہونے والے تمام مسافروں کا بغور معائنہ کیا کرتے تھے۔ ایک بار ایک خوبصورت نوجوان لڑکی آئی جس نے سرخ رنگ کا لباس پہن رکھا تھا۔ وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔ اسے دیکھ کر پائلٹ نے کیبن منیجر سے کہا کہ اس سے پوچھو، اگر یہ کاک پٹ میں بیٹھ کر سفر کرنا چاہتی ہے تو آ جائے۔گریچن کا کہنا تھا کہ اس دور میں ایسے کئی واقعات پیش آتے تھے جن کا آج تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس دور میں جہاز کے عملے کے شراب پینے پر بھی کوئی پابندی نہیں تھی، ایک حد مقرر تھی لیکن کوئی اس کی پابندی نہیں کرتا تھا۔ ایک بار ایک مرد فلائٹ اٹینڈنٹ نے جہاز میں اس قدر شراب پی لی کہ پرواز اترنے پر سیڑھی لگنے سے پہلے ہی وہ جہاز سے اتر گیا اور12فٹ نیچے تارکول پر جا گرا اور شدید زخمی ہو گیا۔ وہ ابھی ہسپتال میں ہی تھا کہ اسے نوکری سے نکال دیا گیا۔ انتظامیہ نے اس کے صحت مند ہونے کا بھی انتظار نہیں کیا تھا۔