اسلام آباد (ویب ڈیسک)2018 آیا اور گزر گیا، کچھ کاروباری افراد کے لیے اچھا اور کئی کے لیے برا رہا۔لیکن معیشت کے لیے گزرا برس کیسا رہا؟ اس سوال کا جواب ہے آدھا سال اچھا اور آدھا برا۔جون 18 20 میں ختم ہونے والے مالی سال جولائی 17 تا جون 18 میں شرح نمو ایک دھائی کی بلند ترین سطح پر رہی،، لیکن 2018 جولائی سے دسمبر کی کارکردگی نے پریشان کردیا۔ گزرے برس کو مد نظر رکھتے ہوئے میں معاشی صورت حال پر تبصرہ یوں کر سکتا ہوں کہ کس راہ گزر کو ہم گزار کر آئے ہیں۔2018 کے آخری ایام میں پاکستانی روپے کی قدر دیکھیں تو انٹربینک تبادلہ مارکیٹ میں ڈالر لگ بھگ 139 روپے کو چھوتا ہوا بلندی کی نئی سطح پر ہے اور جب ڈالر مہنگا ہو تو سونے کی تیوری کیوں نہ چڑھے۔سعودی نے ہر ماہ ایک ارب ڈالر اسٹیٹ بینک میں جمع کرواتے ہوئے سال کے اختتام پر دو ارب ڈالر بھیجے۔ تاہم یہ رقم تین فیصد شرح سود پر جمع کراوئی گئی ہے۔سال کے آغاز پر ایک تولہ سونا تقریباً 54 ہزار روپے پر تھا لیکن سال کے اختتام تک اسے پر لگ گئے اور اس نے اونچی اڑان بھری۔ اب یہ قریب 68 ہزار روپے فی تولہ ہو گیا۔روپے کی قوت تبادلہ متاثر ہوئی ہے کیوں کہ مرکزی بینک کے پاس زرمبادلہ ذخائر جو سال کے آغاز پر 14 ارب ڈالر تھے وہ کم ہوکر 8ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔سعودی عرب نے تین ارب ڈالر دینے کے ساتھ خام تیل کی خریداری کے ادائیگی میں تاخیر کی سہولت دی تو معیشت کی سانس کچھ بحال ہوئی۔ سعودی نے ہر ماہ ایک ارب ڈالر اسٹیٹ بینک میں جمع کرواتے ہوئے سال کے اختتام پر دو ارب ڈالر بھیجے۔ تاہم اب یہ کوشش کی اج رہی ہے کہ معیشت بہتر ہوسکے