ہر سال 10 دسمبر آتی ہے اور گزر جاتی ہے۔ دنیا کے تمام ملک سرکاری طور پر اس روز کو ’انسانی حقوق کے عالمی دن‘ کے طور پر مناتے ہیں اور ان ہی ملکوں میں حقوق انسانی کی کھلم کھلا خلاف ورزی بھی ہوتی رہتی ہے۔ یہ جو 2016 کا سال گزرا ہے، اس میں دنیا کے بعض خطوں میں جینے کا بنیادی حق جس طرح پامال کیا گیا، اس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔ شام اور عراق میں شہر کے شہر بمباریوں سے تباہ کیے گئے۔ ان کے شہری لاکھوں کی تعداد میں ہلاک اور معذور ہوئے، دربدر ہوئے۔ پناہ گزین بن کر محفوظ ٹھکانوں کی تلاش میں نکلے ، کہیں سمندر بُرد ہوئے، کہیں سے دھتکارے گئے۔ روہنگیا مسلمان اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔ افریقا کے بعض ملکوں میں لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ کیا نہیں ہوا۔ تیسری دنیا کے متعدد ملکوں میں انسان جینے کے حق سے محروم اور بے توقیر ہے۔ ایسے میں 10 دسمبر کی اہمیت کہیں بڑھ جاتی ہے۔
ہم ایک ایسے سماج میں زندہ ہیں جہاں ریاست کے بالادست ادارے، مختلف عسکری تنظیمیں اور نسلی، لسانی اور مسلکی بنیادوں پر وجود میں آنے والے متعدد گروہ انسان کے زندہ رہنے کے بنیادی حق کو چھین لینا اور جیتے جاگتے انسان کو مذہبی، سیاسی، مسلکی، صنفی، نسلی یا لسانی بنیادوں پر قتل کردینا اپنا حق جانتے ہیں۔ ایسے میں ’حقوق انسانی‘ کی بات کرنا اندھوں کی بستی میں آئینے کی دکان داری کے مترادف ہے۔
وہ بچہ جو اینٹ بھٹے پر آگ سے دہکتی ہوئی اینٹیں اٹھاتا ہے، کیا اس کا یہ انسانی حق نہیں کہ اگر اس کے ہاتھ میں چکنی جلد والی کاپی نہ ہو تو کم سے کم سلیٹ یا لکڑی کی تختی تو ہو۔ وہ بچی جو خود سے چند برس چھوٹے بچے یا بچی کی ٹہل سیوا کررہی ہے، کیا یہ اس کا حق نہیں کہ وہ بھی دوسرے بچوں کی طرح آزادی سے کھیل سکے، کھلونے خرید سکے، پیٹ بھر کر کھا سکے یا اپنی گڑیا کی شادی کرسکے؟
ایک طرف مغرب میں یہ بحث چل رہی ہے کہ حکومتیں پارکوں میں داخلہ فیس لگا کر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کررہی ہیں، کیونکہ پیڑوں، پودوں، پھولوں اور سبزے سے لطف اندوز ہونا، انسان کا پیدائشی حق ہے۔ دوسری طرف وہ ملک بھی ہیں جہاں کے حکمران انسانوں کے قتل عام کو اپنا حق جانتے ہیں، اور اسے ملکی تحفظ اور سلامتی کے نام پر انجام دیتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انسانی حقوق اس وقت سے اپنا وجود رکھتے ہیں جب سے اس کرۂ ارض پر انسان موجود ہے۔ انسانی حقوق، ریاست کے وجود میں آنے سے پہلے موجود تھے۔ حقوق انسانی کے تحفظ کے اصول کا حقیقی ماخذ یہ تصور ہے کہ انسان ایک ’’ہستی‘‘ ، ایک ’’فرد‘‘ ہے اور ایک ہستی یا ایک فرد کے کسی سماج یا معاشرے سے تعلق اور رشتے کو ’’عالمی فطرتِ انسانی‘‘سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ انسانی حقوق کا وجود کسی مملکت یا ریاست کی پسنداور ناپسند پر منحصر نہیں، نہ اس کا کسی مملکت کے قوانین یا عدالتی نظام پر انحصار ہے، نہ یہ بین الاقوامی طور پر رسم و روایات یا معاہدوں کا پابند اور محتاج ہے۔ اس کا وجود انسان سے ہے اور انسان کے وجود کا انحصار انسانی حقوق پر ہے۔ چنانچہ یہ دونوں ایک دوسرے سے اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ انھیں نسل، رنگ، صنف، مذہب یا زبان کی بنیاد پر علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔
حقوق انسانی کی تحریک پر گفتگو کرتے ہوئے جب بار بار اقوام متحدہ کے عالمی منشور برائے حقوقِ انسانی کا ذکر کیا جاتا ہے اس وقت ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس منشور کے پیش کیے جانے کے چوبیس برس پہلے سے متعدد دانشور ایک ایسی دستاویز تیار کرنے کی سنجیدہ کوششیں کررہے تھے۔ یہ کوششیں پہلی جنگ عظیم کے چند برس بعد ہی شروع ہوگئی تھیں اور دوسری جنگ عظیم کے دوران اور فوراً بعد یہ کوششیں بہت تیز ہوگئیں۔ ان دونوں عالمی جنگوں کے دوران اور اس کے بعد انسان کے ہاتھ انسانیت کی شدید تذلیل نے اس وقت کے دانشوروں، مفکروں اور سیاستدانوں کو مجبور کردیا تھا کہ وہ اس بارے میں گہرے غور و فکر سے کام لیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں حقوق انسانی کا جو عالمی منشور 10 دسمبر 1948 کو پیش کیا گیا، اس کے مسودے پر 1944 سے 1948 یعنی چار سال کی مدت تک غور و فکر ا ور بحث و تمحیص کی گئی۔ یہ منشور کسی ایک شخص کا لکھا ہو ا نہیں، متعدد مغربی اور مشرقی مفکرین اور سیاسی مدبرین اس کی تیاری کے لیے سر جوڑ کر بیٹھے۔ انھوں نے یکے بعد دیگرے کئی مسودے تیار کیے جس کے بعد مجوزہ مسودہ جنرل اسمبلی میں پیش کیا گیا اور وہاں بھی اس پر تین ماہ کی مدت تک بحث ہو تی رہی جس کے بعد اسے منظور کیا گیا۔
10 دسمبر 1948 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسے پیش کرتے ہو ئے، دستاویز کے مسودہ کمیٹی کی صدر مسز ایلینرروز ویلٹ نے کہا تھا ’’یہ ممکن ہے کہ یہ دستاویز تمام انسانیت کے لیے بین الاقوامی میگناکارٹا کی حیثیت اختیار کرلے اور آج اگر جنرل اسمبلی اسے منظور کرلیتی ہے تو اس کی اہمیت کا تقابل 1789 میں ڈیکلیئریشن آف دی رائٹس آف مین سے کیا جائے گا۔‘‘
ہوسکتا ہے کہ اس زمانے میں بہت سے سیاسی مبصرین، ماہرین قانون اور دانشوروں کو مسز روز ویلٹ کا بیان ضرورت سے زیادہ خوش امیدی کا مظہر نظر آیا ہو لیکن آج جب کہ اس منشور کو تحریر ہوئے 68 برس گزر چکے ہیں، یوں محسوس ہو تا ہے کہ اس منشور نے دنیا بھر کے لاکھوں کروڑوں انسانوں کو جینے کا حوصلہ دیا ہے اور اس کی موجودگی کے سبب استبدادی حکومتوں پر مسلسل ایک دباؤ قائم رہتا ہے، جس کی وجہ سے انقلابی سوچ رکھنے والے بعض دانشوروں، سیاست دانوں اور سیاسی کارکنوں کی قید و بند کی زندگی نسبتاً سہل گزرتی ہے۔
یہ منشور جب پیش کیا گیا اس وقت دنیا دوسری جنگ عظیم کے دہکائے ہو ئے جہنم میں جل رہی تھی، بمباری سے تباہ ہو نے والی عمارتوں کا ملبہ ابھی اٹھا بھی نہیں تھا اور دو کروڑ انسان جو اس جنگ میں ہلاک ہو ئے تھے ان کے چاہنے والوں کے نہ آنسو خشک ہو ئے تھے اور نہ ان کے زخموں پر ابھی کھرنڈ جما تھا۔ ایک ایسے تباہ حال زمانے میں شرف انسانی کا اور انسانیت کی عظمت کا خواب دیکھنا یقیناً بہت سے لوگوں کو دیوانے کا خواب محسوس ہوا ہوگا۔ یہ خواب جو انسانی حقوق کے عالمی منشور کی صورت میں کاغذ پر تحریر ہوا، اس نے ہر انسان کو یاد دلایا کہ وہ نسل، صنف، مذہب، رنگ، زبان، عقیدے اور سیاسی نظریے کی تفریق اور تمیز کے بغیر ’’عظیم انسانی خاندان‘‘ کا ایک فرد ہے۔
اس کا وقار کسی دوسرے انسان کے وقار سے کم نہیں اور اس کا رتبہ، کسی دوسرے انسان کے رتبے سے زیادہ نہیں۔ وہ آزاد پیدا ہوا ہے، شعور رکھتا ہے اور اس شعور کی زندگی میں وہ اس کائنات کا سب سے ذمے دار اور خوبصورت وجود ہے۔ زندگی کی ضمانت، روزگار اور علم و انصاف کا حصول، ترقی کے مساوی مواقعے اور تحریر و تقریر کی آزادی اس کے پیدائشی حقوق ہیں۔ سیاسی، مذہبی، نسلی، لسانی یا صنفی بنیادوں پر اسے اس کے کسی بھی بنیادی حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا اور دنیا کی ہر مملکت اور اس کے حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ اس دستاویز کا احترام اور اس کے نکات کی پاسداری کریں۔
پاکستان بنیادی حقوق کے عالمی منشور پر دستخط کرچکا ہے، اس کے علاوہ بھی وہ اقوام متحدہ کی دیگر اہم دستاویزات کا دستخط کنندہ ہے۔ ہو نا تو یہ چاہیے تھا کہ اس بنیاد پر پاکستان میں تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہوتے لیکن پاکستان کی زندگی کا بیشتر حصہ چونکہ آمریت کے سائے میں بسر ہوا، اسی لیے یہاں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کی بدترین مثالیں قائم ہوئیں۔
انسانی حقوق کا معاملہ جمہوریت سے جڑا ہوا ہے۔ ایک جمہوری سماج میں ہی ریاست کے تمام ادارے اپنے دائرے میں کام کرنے کے لیے مجبور ہوتے ہیں کیونکہ انھیں احتساب کا ڈر ہوتا ہے۔ جب عدل کا خاتمہ بالخیر ہوجائے اور حقوقِ انسانی غضب کرنے والے محتسب بن بیٹھیں تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایک ایسے سماج میں انسان کتنا بے توقیر اور مجبورِ محض ہوجاتا ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے یہاں کے خرد دوست اور روشن خیال شہریوں پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جمہوریت کے استحکام کے لیے جدوجہد کریں کہ اس کے استحکام کے ساتھ ہی ہمارے لوگوں کے انسانی حقوق بحال ہوسکتے ہیں۔