تحریر : راؤ خلیل احمد
چربی کسی بھی جاندار کا اہم جز ہے ۔ انسانوں میں اس کی کمی السر کا باعث مگر زیادتی کئی مسائل کا باعث بنتی ہے ، عقل پے چڑھ جائے تو انسان ، انسان نہیں رہتا ، انکھوں پے چڑھ جائے تو اپنے پرائے کی پہچان ختم اور اگر دل پے چڑھ جائے تو جان کے لالے اور اگر یہی چربی کھال پے چڑھ جائے تو انسان دو ٹانگوں والا جانور لگنے لگتا ہے۔ اور یہی چربی ہے جس نے آج کل برطانیہ میں رہنے والوں کو پریشان کیا ھوا ہے ، ستمبر سے جاری ہونے والے پانچ پونڈ کے نئے نوٹ میں چربی کے استعمال کی وجہ سے ویجٹیرین ریسٹورنٹ والے سخت پریشان ہیں ۔ لیکن ابھی یہ پریشانی مسلمانوں کے لیے بھی مشکل کا باعث ہو گی جب اس چربی کا کھرا خنزیر کے گھر تک جائے گا۔ آپ تاریخ میں جھانکیں، تو 1857 کی عوامی بغاوت کی وجہ بھی یہی چربی تھی۔
میڈیکل ریسرچ انسٹیٹیوٹ امریکہ کے ڈاکٹر محمد امجد خان کی تحقیق کے مطابق یورپ سمیت تقریبا تمام غیر مسلم ممالک میں خنزیر کا گوشت پہلی پسند ہے-ان ملکوں میں بہت سے فارم ہیں جہاں اس جانور کی پرورش کی جاتی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ فرانس میں 42,000 سے زیادہ فارم ہیں -اسی طرح برطانیہ میں بھی کثیر تعداد میں ہیں ۔ خنزیر کے گوشت کی کھپت تو سمجھ میں آتی ہے ۔ یورپ اور امریکہ کے لوگ چربی سے پرہیز کرتے ہیں مگر خنزیر میں دوسرے تمام جانوروں کے مقابلے زیادہ چربی ہوتی ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ خنزیر کی چربی جاتی کہاں ہے؟۔
یورپ میں تمام خنزیر محکمہ خوراک کی نگرانی میں مذبح خانوں میں ذبح کیے جاتے ہیں-اور محکمہ خوراک کے لئے ان خنزیروں سے نکلی ہوئی چربی کا تلف درد سر تھا- ساٹھ سال پہلے تک اسے عموما جلا دیا جاتا تھا-پھر ان لوگوں نے چربی کو استعمال کرنا سیکھ لیا-پہلے پہل ان لوگوں نے چربی کو صابن بنانے میں استعمال کرکے دیکھا اور یہ تجربہ کامیاب ہوا- پھر ایک پورا نیٹ ورک اس میدان میں کود پڑا -اور خنزیر کی چربی کو کیمیکل سے گزار کر ، پیک کرکے بازار میں اتار دیا -جب کہ سامان بنانے والی دوسری کمپنیوں نے اسے خریدنا شروع کیاگیا۔
اسی دوران تمام یورپی ممالک نے ایک قانون بنایا – وہ یہ کہ خوراک ، دوائیوں اور ذاتی استعمال کی تمام چیزوں کے کور پر اس میں استعمال کی گئی اشیا کی فہرست دینی ہوگی- اس طرح خنزیر کی چربی کی فہرست بھی انھیں دینی پڑی-اس فہرست نے خنزیر کی چربی استعمال ہونے والی چیزوں کی مسلم ممالک میں ممنوع قرار پائیں۔ کاروباری میں نقصان کے پیش نظر مینوفیکچرر نے خنزیر کی چربی کی جگہ جانور کی چربی لکھنا شروع کردیا – لیکن جب مسلم ممالک کے زمہ داروں نے ان کمپنیوں سے سوال کیا کہ ان مصنوعات میں کس جانور کی چربی ہے تو انھوں نے کہا کہ گائے اور بھیڑ کی چربی ہے – مسلم ممالک نے پھر بھی ان مصنوعات پر بین برکرار رکھا کیونکہ حلال جانور بھی اگر زبح حلال نھیں تو وہ بھی حلال نھیں۔
اس فیصلے سے ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بڑا نقصان اٹھایا – تقریبا 75 فی صد کاروبار مسلم ممالک میں رک گیا-اور ان کو لاکھوں ڈالر کا نقصان ہوا عام آدمی کو اندھیرے میں رکھنے کے لیے انھیں ملٹی نیشنل کمپنیوں نے E-Cods کا استعمال شروع کیا -اور یہ طریقہ آج کی زیادہ تر مصنوعات میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ جن مصنوعات مییں چربی استعمال ہوتی ہے ان کو مخصوص کوڈ دے دیے گئے ہیں۔ تمام مسلمانوں اور سبزی خوروں سے گزارش ہے کہ وہ روز مرہ کے استعمال کی چیزوں کو استعمال کرنے سے قبل ذیل میں دئے ہوئے کوڈ سے ملا کر دیکھ لیں – اگر کوئی کوڈ مل جاتا ہے تو اس چیز کو استعمال نہ کریں کیوں کہ اس میں خنزیر کی چربی ہوگی۔
E100, E110, E120, E140, E141, E153,
E210, E213, E214, E216, E234, E252, E270, E280,
E325, E326, E 327, E334, E335, E336, E337,
E422, E430, E431, E432, E433, E434, E435, E436, E440,
E470, E471, E472, E473, E474, E475, E476, E477,
E478, E481, E482, E483, E491, E492, E493, E494, E495,
E542, E570, E572, E621, E631, E635, E904.
اس کی احتیاط نا کرنے والوں کے دل دماغ اور انکھوں پے بھی چربی چڑھ جاتی ہے ۔ اور جب یہ نامراد چربی چڑھ جائے تو اپریشن ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اور اسی نامرادچربی نے بہت سوں کو کہیں کا نہیں چھوڑا ۔ اللہ ہمیں اس چربی سے ہر ممکن بچنے کی توقیق عطا فرمائے۔