تحریر : شاہد شکیل
سوئس نیورو سائنسٹسٹ ہنری مارک ریم انسانی دماغ کو کمپیوٹر کے ذریعے نئی ٹیکنیک سے ایجاد کرنا چاہتا ہے لیکن یورپی یونین اس عظیم پروجیکٹ کو محض اس لئے حماقت تصور کرتی ہے کیونکہ ہنری اس نئی ایجاد کیلئے ایک میلین یورو کی امداد چاہتا ہے۔رپورٹ کے مطابق ہیومن برین پروجیکٹ کے اس منصوبے کی تیاری میں دس سال کا عرصہ درکا رہوگا اور دیگر یورپی سائنسدان جزوی طور پر ہنری کے خواب سے متفق ہیں کہ تجربہ پایہ تکمیل پہنچانے میں اسکی مالی امداد کی جائے،ابتدائی تحقیق کیلئے ہنری نے ایک میلین یورو کی گرانٹ کیلئے درخواست دی طویل بحث و مباحثہ اور منصوبے کی ڈیٹیل سے آگاہ ہونے کے بعد پہلی بار یورپی کمیشن نے ایک بگ سائینسی پروجیکٹ کو اختتام تک پہنچانے کیلئے ہنری کو ایک میلین یورو کی گرانٹ دینے کی حامی بھری ہے،جبکہ یورپ کے تین نیورو سائنسدانوں کا کہنا ہے دماغ کی سیمولیشن تیار کرنا چاند پر جانے کے برابر ہے۔
مختلف میڈیا میں ہنری کے پروجیکٹ کو پاگل پن کا حصہ قرار دیا گیا لیکن ہنری کا کہنا ہے وہ اپنے اس منصوبے کو ہر حال اور قیمت پر مکمل کرنا چاہتا ہے،افواہوں میں یہاں تک بیانات دئے گئے کہ ہنری اندھیرے میں کالی بلی تلاش کر رہا ہے کیونکہ چار سو ساٹھ دماغی بیماریوں میں سر فہرست آلزہائیمر اور پارکنسن ہیں انہیں آج تک کوئی سمجھ نہیں پایا تو مصنوعی دماغ پر کس طریقے سے ریسرچ کی جا سکتی ہے علاوہ ازیں ان دونوں بیماریوں کے علاج پر صرف یورپ میں سالانہ ساڑھے سات سو میلین یورو کے اخراجات آتے ہیں اور نتائج نصف بھی برآمد نہیں ہوتے اور بقول ہنری کے مصنوعی دماغ کو بذریعہ کمپیوٹر کیسے ہینڈل کیا اور دماغی چار سو ساٹھ پوشیدہ بیماریوں کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔
یہ سب اندھیرے میں کالی بلی پکڑنے کے مترادف ہے اور ان کا کھوج لگانا ہی ممکن نہیں جبکہ ہنری کا دعوا ہے کہ وہ علاج بھی دریافت کرے گا،دوسری طرف ہنری کا کہنا ہے ہیومن برین پروجیکٹ کے ذریعے دماغ کے تاریک حصوں کو روشنی کے علاوہ ای میڈیسن یعنی الیکٹرونک ادویہ سے بھی دریافت کیا جائے گااور مصنوعی دماغ کو تھیراپی کے بعد ڈپریشن اور دیگر نیورو لوجی بیماریوں پر ٹیسٹ کیا جائے گا ،مصنوعی دماغ پر تجربات اور مکمل ٹیسٹ کی کامیابی کے بعد تمام عمل انسانوں پر کیا جائے گا ہمارے اس منصوبے میں کسی جانور کے ذریعے کوئی ٹیسٹ یا تجربہ نہیں ہو گا اور اس نئے دماغی الیکٹرونک پروجیکٹ سے نئی نسل مستفید ہو گی۔
نئی تحقیق کے مطابق سپر کمپیوٹر اور دماغی ویوو سے انسانوں کی یاداشت کو بھی کنٹرول کیا جائے گا جس سے ایک انسان کی پرانی میموری کے نتائج بھی سامنے آ سکیں گے اور ایک خواب حقیقت میں ڈھل جائے گااس پروجیکٹ سے ایک نئی الیکٹرونک انڈسٹری کی تخلیق ہو گی کمپیو ٹر سیمولیشن سنسنی خیز حدود سے گزرنے کے بعد تمام حقائق سے آگاہ کرے گا اور بذریعہ اشاروں اور سگنل کے فوری رزلٹ آئے گااس ٹیکنالوجی سے میڈیسنز ، انجئیرنگ کے علاوہ نیورو لوجی ٹیکنیک میں انقلاب آجائے گا اور ہیومن برین پروجیکٹ سے کئی صدیوں تک انسان فائدہ اٹھا سکیں گے ۔ہنری مارک ریم جنوبی افریقا میں پیدا ہوا ،انیس سو اسی میں میڈیسن کی تعلیم کیپ ٹاؤن میں حاصل کی ،وہ ماہر نفسیات بننا چاہتا تھا لیکن وقت کے دھارے اور مختلف تجربات کے پیش نظر کہ موجودہ دور میں اعصابی عوارض اور نفسیات کی علامات پر بین الاقوامی سطح پر مناسب طریقے سے علاج نہیں ہو رہا اور ایک نئی تحقیق کا دریافت ہونا لازمی ہے۔
اپنے خیالات اور ذہن میں پائے جانے والے مختلف آئیڈیاز کو اپنے ساتھی روڈنے ڈگلس کو آگاہ کیا وہ بھی نیورو لوجی اور نفسیات پر تحقیق کر رہا تھا ، انیس سو اٹھاسی میں اسرائیل کے معروف انسٹیٹیوٹ وائس مین میں داخل ہوا اور وہاں نیورون پر مزید تعلیم حاصل کی،وہیں پہلی شادی کی اور دو بچوں کا باپ بنا،بعد ازاں نوبل انعام یافتہ برٹ سیک مین سے وابستہ ہوا جو جرمنی کے میکس پلینک انسٹیٹیوٹ ہائیڈل برگ میں اپنے فرائض انجام دے رہا تھا ،ہنری کا ہائیڈل برگ منتقل ہونا اسکی زندگی میں اہم موڑ ثابت ہوااور مزید تفصیلات حاصل کرنے کے بعد اپنے ذاتی فیوچر پلان ہیومن برین پروجیکٹ کی طرف راغب ہوا۔
دو ہزار پانچ میں فیڈرل پولی ٹیکنیک سکول لوزان سوئیزر لینڈ میں بلیو برین پروجیکٹ کا آغاز کیا،پروجیکٹ کی ابتدا خاصی تکلیف دہ تھی کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اسے دنیا کے سب سے بہترین اور جدید کمپیوٹر کی تلاش تھی جس سے وہ اپنی تخلیق کو اپنی مرضی اور نئے آئیڈیاز سے استعمال کر سکے ،آئی بی ایم کمپنی نے اسے جدید ٹیکنیک سے بھرپور کمپیوٹر فراہم کیا جس سے وہ دماغی سیمولیشن تیار کر سکے۔
چار مختلف ریفریجریٹر سائزکے انسٹرومنٹس کو مخصوص مقامات پر نصب کیا گیا جنہیں یونٹس کا نام دیا اور مصنوعی دماغ کی سیمولیشن پر اپنے تجربات کا آغاز کیا مصنوعی دماغ کے ارب سے زائد خلیات کو مختلف زایوں اور اینگل سے دیکھنے کیلئے بگ سکرین کا انتظام کیا گیا اب وہ ان خلیات کو بذریعہ یونٹس اور بگ سکرین کے ایک ہزار گنا بڑا دیکھ سکتا تھا،بعد ازاں ابتدائی تحقیق تھری ڈی فلم سسٹم میں تمام پروجیکٹ منتقل کیا گیا اور زائرین میں نئی تحقیق کو روشناس کرایا اسکی ریسرچ دیکھ کر سب حیرت کے سمندر میں ڈوب گئے کہ کیسے ایک انسانی دماغ کے خلیات سر میں نقل و حرکت کرتے ہیں چمکیلی روشنیوں میں قوس و قزاح کی طرح پلک جھپکتے رنگ بدلتے ہیں۔
ایک دماغی حصے سے دوسرے تک کس تیز رفتاری سے سفر کرتے ہیں ،دماغی خلیات کا ردھم کسی پیانو کے ساز سے کم نہیں تھا تھری ڈی فلم سے مزید واضع طور پر ایک ایک دماغی ذرے کو قریب سے بخوبی دیکھا جا سکتا تھا ،ہنری کے اسسٹنٹ کا کہنا تھا فی الحال پروجیکٹ کی ایکٹیویٹی صرف سیمولیشن تک ہی منسوب کی گئی ہے مزید تجربہ نہیں کیا جا سکتا،ہنری کی ٹیم میں چالیس سے زائد محقیقین مکمل الیکٹرونک سسٹم سے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے تمام سسٹم آٹومیٹک ہے اور ہمیں کسی مقام پر کوئی سگنل نہیں دینا پڑتا کیونکہ دماغ ایک مقام پر منجمند نہیں ہوتا اور سوتا جاگتا یا خواب دیکھتا ہے بدیگر الفاظ ہر وقت حرکت میں رہتا ہے جس سے ہمارے تجربات میں آسانی پیدا ہوتی ہے اور ہم روز بروز نئی تحقیق کرنے اور تلاش میں رہتے ہیں۔ جاری ہے۔
تحریر : شاہد شکیل