تحریر : شاہد شکیل
ہنری موجودہ دماغی محقیقین سے اختلاف رکھتا ہے اس کا کہنا ہے بنیادی طور پر اعصابی خلیات کے درمیان روابط مضبوط ہوتے ہیں اور یکے بعد دیگرے بتدریج اپنے لئے راہیں ہموار کرتے رہتے ہیں ، ہنری عنقریب ایک نیا تجربہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور بذریعہ سیمولیشن کئی دہائیوں کیلئے دماغی خلیات کو کیمیائی سگنل سے مزید وسعت دینے سے ایک دوسرے کے ساتھ مزید روابط اور ترقی دینا چاہتا ہے جس سے ہر چھوٹے بڑے سفر کرتے خلیات میں کنکشن پیدا ہونے کے بعد انکی پوزیشن پر کنٹرول کیا جائے گا اس عمل کو یقینی بنانے کیلئے ایک نئی ٹیم تشکیل دی جائے گی جو پرانی ٹیم اور نیٹ ورک کے ساتھ ایک خود کار سسٹم کے تحت کیمیا ئی عمل کو پایہ تکمیل پہنچائے گی۔ہنری کے انٹر پریٹیشن ، نتائج اور کامیابی کے بعد نیورو لوجی سے منسلک ساڑھے تین سو محقیقین ہیومن برین پروجیکٹ میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں تمام محقیقین کا تعلق یورپ کے نو ممالک کے تیرہ انسٹیٹیوشن سے ہے۔
ہنری کاکہنا ہے وقت تیزی سے بدل رہا ہے اور ہم ایک نئے سپر کمپیوٹر کی تیاری میں مصروف ہیں جس کی ہمیں اشد ضرورت ہے تاکہ مصنوعی انسانی دماغ کو اصل روپ دیا جا سکے،نئے کمپیوٹر موجودہ کمپیوٹر سے ایک ہزار گنا فاسٹ اور ہائی ٹیک ہو نگے اس سلسلے میں میونخ کی ایک کمپنی برن سٹائن سنٹر نے اپنی خدمات پیش کی ہیں اور مستقبل قریب میں انسانی دماغ پر ریسرچ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے،ٹیکنیکل یونیورسٹی آف میونخ سے بھی رابطہ ہے وہ ہمارے پروجیکٹ کیلئے مِنی روبوٹ تیار کرنے کی خواہش رکھتے ہیں،ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے ترجمان کا کہنا ہے ہم ہنری کے سپر پروجیکٹ کیلئے سلکون چپس تیار کریں گے جو دماغ میں نصب کئے جا سکیں گے اور تمام میموری کو سیو کیا جا سکے گا۔ماہرین کا کہنا ہے نئی اور ہائی ٹیکنالوجی پر انحصار کیا جا سکتا ہے
کمپیوٹر کی توانائی میں کمی واقع ہو سکتی ہے اور اس عمل کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی ،کمپیوٹر سائنس ،کمپیوٹر انجیئرنگ کے اعداد و شمار کو مد نظر رکھا جائے گا،مائکرو چپس سے دماغ میں ایک نئی امیج روشن ہو گی اور دوران تحقیق کم سے کم پانچ سو بیس ٹیرا بائٹ کی جگہ درکار ہو گی اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک دماغ میں کس قدر میموری موجود ہے جسے ذخیرہ کرنے کیلئے پانچ سو بیس ٹیرا بائٹ کی خالی جگہ درکار ہو گی۔ ہیومن برین پروجیکٹ کے ترجمان کا کہنا ہے دو مرتبہ آزاد ماہرین ہنری کی لیبارٹری عملی طور پر دیکھنے آئے اور مطمئن ہوئے لیکن ہنری کا بہترین دوست اور کیپ ٹاؤن کا ساتھی ڈگلس اسکے پروجیکٹ سے خوش نہیں تھا اسے بلیو برین پروجیکٹ سے اختلاف تھا اور ہر جگہ نقطہ چینی کرتا اور نقص نکالتا اس کا کہنا تھا ہنری کا پروجیکٹ بغیر پہیوں کی کار ہے جو کھڑی تو رہ سکتی ہے لیکن چل نہیں سکتی اس نے سوئس حکومت کو ہنری کی غلطیوں سے بھی آگاہ کیا،
ہنری سے جواب طلبی ہوئی تو اس کا کہنا تھا اب تک چھ ماہرین ہمارے پروجیکٹ کا معائنہ کر چکے ہیں جن میں بائیو انفارمیٹک، نیورو انفارمیٹک اور کمپیوٹر انجینئرز وغیرہ شامل ہیں سب نے دو روز مکمل طور پر معائنہ کیا انہیں دماغی سیمولیشن کے علاوہ ہر چھوٹے بڑے تجربے سمیت تمام باریکیوں سے آگاہ کیا جس سے وہ مطمئن ہوئے اور پروجیکٹ کو جاری رکھنے کا سرٹیفیکیٹ جاری کیا ان کا کہنا تھا دنیا بھر میں اس سے پہلے ایسا کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا گیا اور ہم اس پروجیکٹ کی سفارش کر تے ہیں۔بالخصوص ماہرین اس بات سے بھی بہت متاثر ہوئے کہ ہنری کا پیچ کلیمپ ایمپلی فائر نوبل انعام یافتہ سیک مین سے مشابہت رکھتا تھا ،مشینوں کے سائز،حساس خوردبینیں،توانائی کی صلاحیت ،مکمل پیمائش اور دیگر کیمیائی و الیکٹرونک آلات کی ایڈجسٹمنٹ ترتیب سے کی گئی تھی قابلِ تعریف بات ان کے لئے تھری ڈی مائکرو سکوپ سے عصبی خلیات کا میتھی میٹک سسٹم تھا ،نیٹ ورک سے ظاہر ہوتا تھا کہ بذریعہ کمپیوٹر ایک اوپن منصوبہ ہے اس میں کسی قسم کی دروغ گوئی ،جاسوسی یا غیر ذمہ داری کی گنجائش موجود نہیں ہے ۔روڈنے ڈگلس کو نہ جانے کیوں ہنری سے حسد پیدا ہوا کہ اس نے دوسری بار سوئس حکومت سے رابطہ کیا تمام مثبت رائے اور تجربات کے باوجود اختلاف تھا اور ہنری پر الزام لگایا کہ وہ حکومت سے میلینز یورو کی دھوکہ بازی کر رہا ہے
اسکی اس دھوکہ بازی میں ماہرین جنہوں نے لیبارٹریز کا کئی بار معائنہ کیا وہ بھی شامل ہیں اور تمام لوگ پروجیکٹ کے بہانے حکومت سے اربوں یورو بٹورنا چاہتے ہیں۔ہنری کا کہنا تھا میں ایک پر امن انسان ہوں اور دنیا میں امن چاہتا ہوں ہو سکتا ہے امن قائم ہونے میں کچھ دیر ہو جائے اگر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میں دھوکہ بازی کر رہا ہوں دماغ کی سیمولیش کی آڑ لے کر حکومت کو نقصان پہنچانا چاہتا ہوں تو بے شک گرانٹ واپس لے لی جائے لیکن میں آج نہیں تو کل اپنے پروجیکٹ کو پایہ تکمیل پہنچا کر ہی دم لونگالوگوں کی خام خیالی ہے کہ میں خوفزدہ ہو کر پروجیکٹ کو ختم کر دونگا حکومت سے گزارش کرتا ہوں کہ چند لوگوں کے کہنے سے اربوں کا پروجیکٹ بند نہیں کیا جانا چاہئے،
میرا ویژن سب جانتے ہیں میں دماغ کو اوپن کرکے دنیا کو دکھانا چاہتا ہوں کہ انسانی دماغ اصل میں کیا چیز ہے میں یہ بھی دکھانا چاہتا ہوں کہ ہم انسان کون ہیں کیوں جنگیں کرتے ہیں کیوں دنیا میں غلاظت پھیلائی جا رہی ہے کیوں انسانی دماغ ہر شے کو کھیل سمجھتا ہے اور یہ سب کچھ جاننے کیلئے ہی اس پروجیکٹ کا آغاز کیا تھا میرے اس پروجیکٹ کے مکمل ہونے کے بعد دنیا جان جائے گی کہ انسان کون ہے اور کیا چاہتا ہے کیوں پیدا ہوا اور کیا کر رہا ہے تمام باتیں سمجھ میں آنے کے بعد دنیا میں سکون اور امن ہو جائے گا یہ میرا دعوہ ہے۔
تحریر : شاہد شکیل