تحریر : آمنہ نسیم
آیلان کردی کون تھا ؟آیلان کردی ماں کا لاڈلا بیٹا تھا اور باپ کا لخت جگر تھا وہ معصوم تھااس سے کوئی جرم سردذد نہ ہواتھا ۔لیکن پھر بھی بے رحم دنیا نے اس کی زندگی نگل لی وہ سمندر میں ڈوب گیا ۔وہ لوگوں کے لیے بس ایک تصویر بن کر کنارے پر ٹھہرگیا۔یہ تصویر مصور کی کڑی تنقید ہے جس کے اپنے کچھ سچے رنگ ہیں تاہم یہ تصویر بھی نامکمل ہے آیلان کردی انسانیت کی راکھ بن کر خاک نشین ہوگیا ۔ترکی کے ساحل پر اوندھے منہ پڑے ننھے آیلان کردی کے جسم خاکی نے ساری دنیاکو رلادیا ۔آیلان کردی کی مجسم بنی تصویر کو دیکھ کر ساری دنیا سکتے کے عالم میں ہے آیلان کردی کی وڈیوں دیکھ کر لوگ سن ہوگئے ۔میں حیران ہوں پریشان ہوکہ آیلان کردی کی یوں موت سے جو لوگ دم بخود نظر آرہے ہیں کیا انھوں نے اپنی زندگی میں پہلا بچہ یوں مرتا دیکھا ہے ؟ نہیں آیلان کردی تو روز مرتے ہیں روز ماووں کی گودے اجاڑی جاتی ہیں روز باپ کے لخت جگر ہمیشگی کی نیند سلائے جاتے ہیں ۔روز زمین اس ظلم پر نوحہ کناں ہوتی ہے روز سوال سسکتے ہوئے دب جاتے ہیں روز ایک آہ ندامت بن جاتی ہے روزایک احساس کہ قہر بن کے برستا ہے روز ایک جرم کہ ہر ایک مجرم بن جاتا ہے روز ایک سانحہ جو اعصاب شل کردیتا ہے روز ایک تڑپ جو زندہ درگو کر دیتی ہے روز ایک جنازہ جو بارندامت بن جاتا ہے روز ایک منظر جوآنکھوں کوپتھرا جاتا ہے آہ! روز ایک معصوم جو انسانی المیہ بن جاتا ہے ۔روز ایک قیامت برپا ہوتی ہے روز خون کی بارش ہوتی ہے ۔
ایلان کردی کی موت صرف ایک بچے ایک انسان کی موت نہیں ہے یہ موت ایک مسلم کے ضمیر کی موت ہے آیلان کردی مظلوم شامی قوم کا ایک بچہ جس کا سارا ملک اپنے ہی حکمران کی کرسی سے چمٹے رہنے کی حسرت و آرزو میں کھلنڈر بن چکا ہے ۔گزشتہ سال آیلان کردی کا گھرانہ آبائی علاقہ کوبانی میں داعش کے دشت گردوں سے جان بچاکر نکلا تھا داعش کون ہے ؟داعش وہ ظالم و سفاک فرعون کا گروہ ہے جوسر کاٹنے اور لوگوںکو زندہ جلانے اور قتل وغارت میں خوشی محسوس کرتا ہے۔یہ جنگ امریکہ اور اس کے اتحادی برطانیہ نے ۲۰۰۳ میں شروع کی اس جنگ ہزاروں گھر ہستے بستے گھر جلادے ہزاروں آیلان کردی جو زندگی کی تلخ حقیقت سے بھی نہ آشنا تھے درےاوں میں بہہ گئے آگ میں جل گئے چاقوں سے کٹ گئے آہ!مائیں تڑپتی رہ گئیں باپ زندہ درگو ہوگئے ۔کون ذی شعور مسلمان ہوگا جو آیلان کردی یا اس جیسے بچوں کی تصویریں دیکھ کر شرمندگی نہ محسوس کرتا ہوگا؟ ان معصوموں کے چھنٹے ہمیں اپنے دامنوںپر نظرنہیں آرہے؟سمندر کے کنارے پر پڑی لاش محض مجسم تصویر تو نہیں ہے ۔یہ توپوری دنیا کا عکس ہے کیا ہر مسلمان اس تصویر میں اپنا عکس نہ دیکھتا ہو گا ؟کیا ہمارا ضمیر چیخ کے نہ پکارتا ہوگا؟
بشار الاسد دور حاضر کا فرعون بلکہ آج کے دور میں بچوں کو ذبح کرنے والے فرعون سے کہیں زیادہ سفاک اور ظالم ہے ۔کیا دنیا میں ایسا کوئی اور ظالم درندہ ہوسکتا ہے ؟جو صرف اور صرف اپنے اقتدار کی مسند پر رہنے کے لیے سارے ملک کو خاک وخون میں نہلا دے آیلان کردی اور اس جیسے گھرانے بہتر معاشی زندگی کی تلاش میں مارے مارے نہیں پھر رہے ایسا ہرگز نہیں ہے یہ لوگ تو اپنی زندگیاں بچانے کے لیے کوشش کررہے ہیں ۔یہ ایک ایسے ملک سے بھاگ رہے ہیں جو پانچ سال جنگ کی آگ میں جلا رہا ہے ۔آہ یہ آگ کیسی چیزوں کو نہیں بلکہ انسانوں کوجلا رہی ہے خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے جہاں انسان نہیں انسان کے روپ میں درندے ہیں یہ تباہی برطانیہ اور امریکہ نے پھیلائی جس میںملک کے بڑے شہر ہی نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے قصبے اور گاوں بھی کھلنڈر میں تبدیل ہو چکے ہیں ۔ایساقبرستان بن چکا ہے جہاں قبریں نظریں نہیں آتی ہیں بلکہ جہاں زندہ لاشوں کے ڈھیڑ نظر آتے ہیں۔
آیلان کردی سے دشمنون نے دشمنی کی یہ ایک فطری عمل تھا آیلان کردی سے اپنوں نے دشمنی کی ’واحد القہار کا غضب ہوگیا ۔نہ جانے کتنے آیلان کردی اپنے والدین کے کندھو ں پر سوار ،اپنے والدین کی بانہوں میں زندگی کو ترستے اپنی جانے بچانے کے لیے کتنے سالوں سے کیسے چیختے چلاتے نظر آرہے ہیں ۔لیکن کیسی کو رحم نہیں آتا کیسی کا دل اس دکھ پر کانپتا نہیں کیسی کے آرام میں خلل نہیں پڑتا ہے ۔کوئی آواز نہیں اٹھاتا ۔کیسی کا ضمیر نہیں اسے جھنجھوڑتا ،کیسی کو ان بچوں میں اپنا بچہ نظر نہیں آتا ،کسی کو بھی روزوشب کی خون کی محفل نظر نہیں آتی ہے۔
۔خدا بتا تیرے جہان کو کیسے بدلے
ذرا روکے چند منٹ کے لیے آیلان کردی کی تصویر کو دیکھے غور سے دیکھے اس دیکھ کر بے چینی محسوس کرے ان کے دکھ کو محسوس کرے ان کے بچوں کو اپنا بچہ محسوس کرے غم و غصے میںآئے آنسو بہائے ،ضمیر کی آواز کو سنے ،ضمیر کی آواز کو اپنے اندر سے نکالے ،رہنماو ¿ں سے اس ظلم کے خلاف ایکشن کا مطالبہ کیجیے ۔اگر ایسا اب اور آج بھی نہ کیا تو کئی معصوموں کی لاشیں ساحل سمندر پر آلگے گئی ۔کئی ماو ¿ں کے لاڈلے بے موت مارے جائیں گئے اور ان کا خون کا ہمارے ہاتھوں پر ہوگا۔
خدارا ان بچوں کو اپنا بچہ سمجھے ان کے درد کو اپنے دلوں میں ذرا محسوس کرے ان کے آنسوو ¿ں میں بہتے درد کو دیکھے ان کے لب پے مچلتے اور دم توڑتے سوالوں کو سنے ،ان کو خاموشیوں کا جواب ڈھونڈے ان کی آہ کا مرہم تلاش کرےان کی زیست کو ختم کرے ان میں اپنا عکس دیکھے اپنے بچوں کا عکس دیکھے ۔ٹوٹے ہوئے عکس کو جوڑ نہیں سکتے لیکن جوڑے ہوئے عکس کو ٹوٹنے سے بچالیں تڑپتے ہوو ¿ں کو ذرا روک کے دیکھے غور سے دیکھے اس عکس میں خود کو دیکھ کر تڑپ اٹھے اگر اب ،اور آج نہیں تو پھر کب ؟؟؟؟
تحریر : آمنہ نسیم