قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی انسانی حقوق نے تبدیلی مذہب کیخلاف اقلیتی رکن سنجے پروانی کابل مسترد کردیا ہے جبکہ لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی فائرنگ اور جارحیت کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ اجلاس کمیٹی کے چیئرمین بابرنوازخان کی سربراہی میں ہواجس میں اقلیتوں کے تحفظ کے بل 2016 پر غورکیا گیا۔
بل کے محرک سنجے پروانی نے کہا معاملے کو مذہب کے بجائے انسانی حقوق کے تناظر میں دیکھنا چاہیے،سندھ حکومت نے اس نوعیت کا ایک قانون منظورکیا ہے جس سے اقلیتوں کو تحفظ ملے گا۔ 18 سال سے کم افراد کے مذہب کی تبدیلی پر مکمل پابندی ہونی چاہیے۔
چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ اس طرح کاکوئی بل 18 سال سے پارلیمنٹ کے سامنے نہیںآیانہ ہی زبردستی تبدیلی مذہب کاکوئی کیس درج ہوا۔چیئر مین کمیٹی نے کہا زبردستی مذہب کی تبدیلی ہو یاشادی ایسا قانونا اور اخلاقاً جرم ہے، اٹھارویں ترمیم کے بعدیہ اب صوبائی معاملہ ہے،اگر اس طرح کاکوئی واقعہ پیش آتا ہے تو ہم نہ صرف اسکی مذمت کرینگے بلکہ کمیٹی ازخود نوٹس بھی لے گی۔
بحث کے بعد کمیٹی نے کثرت رائے سے بل کو مسترد کردیا،کمیٹی نے وادی نیلم اور آزاد کشمیر میں بھارت کی جارحیت اور فائرنگ کی شدید مذمت کی،سینیٹ قائمہ کمیٹی قواعدوضوابط اوراستحقاق کو وزارت خزانہ کی جانب سے بتایاگیاکہ جسٹس(ر)سرمد جیلانی نے رولنگ دی کہ بنکوں سے متعلق معلومات کسی کو بھی فراہم نہ کی جائیں جس پرقائمہ کمیٹی نے کہاکہ تمام ادارے پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہیںانکے تمام قوانین پارلیمنٹ بناتی ہے،وزیرقانون نے کمیٹی کے سامنے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ان کیمرہ اجلاس میںمعلومات فراہم کرینگے۔
اسٹیٹ بنک حکام کا کہناہے کہ نیشنل بینک نے کوئی قرضے معاف نہیں کیے۔چیئرمین کمیٹی کاکہنا تھاکہ میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جوگھربیٹھے سگار پی رہے ہیں جبکہ انھوں نے اپنے نوکروں کے ذریعے قرضے لیے جو آج کراچی کے جیلوں میں پڑے ہیں۔مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق اسٹیٹ بینک نے سینیٹ کوقرضوں سے متعلق تفصیلات دینے سے پھرانکارکردیا ہے۔
چیئرمین سینیٹ نے اسٹیٹ بینک کوقرضوں سے متعلق تفصیل دینے کی رولنگ دے رکھی ہے۔ سیکریٹری خزانہ کے مطابق سٹیٹ بینک نے سابق جج جسٹس سرمد جلال عثمانی سے قانونی رائے لی، جنھوں نے اسٹیٹ بینک کو معلومات فراہم نہ کرنے کی رائے دی، اسٹیٹ بینک،چیئرمین سینیٹ سے رولنگ پر نظرثانی کی درخواست کرے گا۔اسٹیٹ بینک حکام نے بریفنگ دی ،قانون کے تحت تمام تفصیلات پیش نہیں کی جاسکتیںجس پرکمیٹی ارکان وزارت خزانہ اوراسٹیٹ بینک پر برہم ہوگئے۔اسٹیٹ بینک سے پانچ برس کے دوران قرضوں اور معافی کی تفصیلات مانگی گئی تھیں۔