اسلام آباد(یس اردونیوز) بھارتی حکومت انتہا پسند آر ایس ایس نظریے کی اندھا دھند تقلید میں مصروف ہے، جس پر دہلی کی انسانی حقوق کی تنظیموں اورکارکنوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ تفصیلات کے مطابق بھارتی حکومت کی جانب سے دہلی اقلیتی کمیشن کے معمرچیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام پر محض اس لیے بغاوت کا مقدمہ بنا دیا گیا کیونکہ انھوں نے سوشل میڈیا پر بھارت میں جاری اقلیتوں کیخلاف نفرت انگیز مہم کو بے نقاب کیا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں نے دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے خلاف پولیس کی جانب سے بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے انسانی حقوق کے کارکنوں اور بالخصوص اقلیتوں کو ہراساں کرنے سے تعبیر کیا ہے۔ حالیہ دنوں بھارت میں جن مسلمانوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کیے گئے ہیں، ان میں ڈاکٹر ظفر الاسلام خان سب سے معمر ہیں۔ ڈاکٹر ظفر کی عمر 75 سال ہو چکی ہے اور وہ ایک آئینی منصب پر بھی فائز ہیں۔ وہ ایک شہرت یافتہ اسلامی اسکالر، صحافی اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ہیں اور ایک انگریزی اخبار ‘ملی گزٹ’ کے ایڈیٹر بھی ہیں۔واضح رہے کہ ڈاکٹر ظفر الاسلام نے نئی دہلی میں فسادات کے بعد متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ فسادات ایک منظم سازش کا نتیجہ تھے۔ اس میں یا تو دہلی کے باہر کے یا اس علاقے کے باہر کے لوگ ملوث تھے، جنہوں نے دو روز تک مسلسل فساد برپا کیے رکھا تھا۔بھارت میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک رکن پارلیمنٹ پرویش ورما نے الزام لگایا تھا کہ دہلی میں سیکڑوں مسجدیں سرکاری زمین پر غیر قانونی طریقے سے تعمیر کی گئی ہیں۔ ڈاکٹر ظفر الاسلام نے اس الزام کی جانچ کرانے کے بعد ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی تھی اور بتایا تھا کہ پرویش ورما کا یہ الزام بے بنیاد ہے۔ کہیں بھی سرکاری زمین پر قبضہ کر کے کوئی مسجد نہیں بنائی گئی۔حال ہی میں تبلیغی جماعت کے کچھ لوگوں میں کرونا وائرس کی تشخیص ہونے کے بعد بھارت میں تبلیغی جماعت پر کرونا وائرس پھیلانے کے الزامات لگائے جا رہے تھے۔ اس پر بھی ظفر الاسلام خان نے سخت مؤقف اختیار کیا تھا۔انہوں نے تبلیغی جماعت کے بہت سے اراکین کو ایک ماہ سے زائد عرصے تک قرنطینہ میں رکھے جانے پر دہلی کے وزیر صحت کو ایک مکتوب ارسال کیا تھا اور اپیل کی تھی کہ انہیں فوری طور پر وہاں سے جانے کی اجازت دی جائے۔دہلی پولیس اسپیشل سیل کے جوائنٹ کمشنر نیرج کمار کے مطابق ظفر الاسلام خان کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعات 124-اے (بغاوت) اور 153-اے (دو فرقوں کے درمیان منافرت پھیلانے) کے تحت وسنت کنج کے ایک باشندے کی شکایت پر کارروائی کی گئی ہے۔
ڈاکٹر ظفر کے خلاف مقدمہ درج کرنے پر انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بھارت میں انسانی حقوق کی صورت حال اطمینان بخش نہیں ہے۔ اختلافی آواز اٹھانے والوں کے خلاف بغاوت، ہتک عزت اور انسداد دہشت گردی کے قانون ‘یو اے پی اے’ کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف متعدد اقدامات کیے جا رہے ہیں اور انہیں حراست میں بھی لیا جا رہا ہے۔ تاکہ ان کی آواز دبائی جا سکے۔انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق مسلمانوں کے خلاف ایک نفرت انگیز مہم چلائی جا رہی ہے اور ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے خلاف کارروائی بھی اسی مہم کا حصہ ہے۔انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ‘ساؤتھ ایشیا ہیومن رائٹس ڈاکومنٹیشن سینٹر’ کے چیئرمین روی نائر نے خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے دہلی پولیس کی اس کارروائی کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر ظفر الاسلام کے خلاف درج کردہ ایف آئی آر میں دم نہیں ہے۔ یہ بے بنیاد مقدمہ ہے جو عدالت سے جلد خارج ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ظفر الاسلام خان نے دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے بہت کام کیا ہے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے جس طرح اقلیتوں کے حق میں آواز اٹھائی ہے، اس سے بہت سے لوگ خوش نہیں ہیں۔روی نائر کے بقول ڈاکٹر ظفر کے عہدے کی تین سالہ مدت رواں سال جولائی میں ختم ہو رہی ہے اور کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ وہ دوبارہ اس عہدے پر فائز ہوں۔ اس لیے انہوں نے ایک سازش کے تحت یہ کارروائی کرائی ہے۔روی نائر نے ڈاکٹر ظفر کے خلاف بغاوت کے مقدمے کا ذمہ دار مرکزی حکومت کو ٹھیرایا ہے۔’ساؤتھ ایشیا ہیومن رائٹس ڈاکومنٹیشن سینٹر’ کے چیئرمین روی نائر کے مطابق ظفر الاسلام خان اور اس سے قبل جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے طلبہ کے خلاف پولیس کی کارروائی دراصل حکومت کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کی کوشش ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت میں متنازع شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) کے خلاف جو لوگ احتجاج کر رہے تھے، ان کے خلاف بھی کارروائی کی جا رہی ہے۔روی نائر کے بقول حکومت لاک ڈاؤن کی آڑ میں کارروائیاں کر رہی ہے لیکن جب بھی حکومت ان قوانین کو نافذ کرنے کی کوشش کرے گی، اس کے خلاف ایک بار پھر آواز بلند کی جائے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال اطمینان بخش نہیں ہے۔ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی جا رہی ہے جس کی وجہ سے ملک کا سیکولر کردار متاثر ہو رہا ہے۔انسانی حقوق کے لیے سرگرم ایک اور تنظیم ‘فورم فور سول رائٹس’ کے چیئرمین سید منصور آغا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پولیس نے ایک نامعلوم شخص کی شکایت پر ڈاکٹر ظفر کے خلاف کارروائی کی۔ جب کہ بی جے پی کے رہنماؤں نے فروری میں جو اشتعال انگیزی کی تھی، جس کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دہلی ہائی کورٹ نے دیا تھا، ان کے خلاف تاحال کوئی رپورٹ درج نہیں ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ظفر الاسلام خان کے کارروائی ملک میں جاری اسلاموفوبیا کے تحت کی گئی ہے۔ منصور آغا کے مطابق یہ کارروائی ڈاکٹر ظفر کی آواز دبانے کے لیے کی گئی ہے۔ انہوں نے گزشتہ تین برسوں میں جو کارنامے انجام دیے ہیں وہ بہت سے لوگوں کو ہضم نہیں ہو رہے۔
سید منصور آغا کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن کی رپورٹ کا تجزیہ کرتی اور اس میں جو تشویش ظاہر کی گئی ہے، اسے دور کرتی۔ لیکن اس کے بجائے حکومت ان کاموں کو مزید آگے بڑھا رہی ہے۔ان کے مطابق انسانی حقوق کے سلسلے میں اور عوام کو دو حصوں میں باٹنے کی کوشش کے خلاف جو بھی آواز اٹھائی جاتی ہے، حکومت اسے دبانے کی کوشش کرتی ہے۔ خواہ سی اے اے اور این پی آر کا معاملہ ہو یا دیگر معاملات، سب میں حکومت کا یہی رویہ ہے۔انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن اور سینئر تجزیہ کار اپوروانند نے کہا کہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے جو بیان دیا تھا وہ دراصل مسلمانوں میں پائی جانے والی مایوسی اور حالات کے پیش نظر ناراضگی کا مظہر تھا۔ ان کی ناراضگی بالکل درست تھی، اس کی بنیاد پر بغاوت کا مقدمہ قائم کرنا مناسب نہیں۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بار بار اپنے فیصلوں میں کہا ہے کہ اس طرح کسی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ قائم نہیں کیا جا سکتا۔ صرف الزام لگا دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اسے عدالت میں ثابت بھی کرنا ہو گا۔یک سماجی تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) نے بھی ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں کے خلاف کارروائی کی مذمت کی ہے اور اسے ان کی کردار کشی سے تعبیر کیا ہے۔پی ایف آئی کے چیئرمین نے مرکزی حکومت اور دہلی پولیس سے اپیل کی ہے کہ وہ ظفر الاسلام خان کو نشانہ بنانا بند کریں اور ان کے خلاف درج مقدمہ واپس لیا جائے۔ملک کی 92 سرکردہ شخصیات نے بھی ایک مشترکہ بیان جاری کر کے دہلی پولیس کی اس کارروائی کی مذمت کی ہے اور حکومت سے ان لوگوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے جنہوں نے ظفر الاسلام خان کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا تھا۔