تحریر : ممتاز حیدر
حقوقِ انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت ملک میں اظہارِ رائے کی آزادی اور مذہبی اقلیتوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے۔تنظیم کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی ورلڈ رپورٹ 2016 میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت میں حکومت کے ناقد سول سوسائٹی کے گروپوں کو نہ صرف فنڈنگ کی بندش بلکہ بڑھتی ہوئی پابندیوں کا بھی سامنا ہے۔اس رپورٹ میں 90 سے زیادہ ممالک میں حقوقِ انسانی کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق جہاں بھارت میں برسرِاقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے کچھ رہنماؤں کی جانب سے اقلیتوں کے بارے میں اشتعال انگیز بیانات سامنے آئے وہیں ہندو قوم پرست گروپوں کی جانب سے انھیں ہراساں بھی کیا جاتا رہا اور کچھ واقعات میں نوبت اقلیتوں پر حملوں تک بھی جا پہنچی۔جنوبی ایشیا کے لیے ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے تنقید کو دبانے کی کوشش ملک میں اظہارِ رائے کی آزادی کی قدیم روایت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
بھارت میں حکمران جماعت کے کچھ رہنماؤں کی جانب سے مسلم مخالف بیانات کا چلن تشویش ناک ہے اور اس سے مذہبی اقلیتوں میں عدم تحفظ میں اضافہ ہوا ہے۔جب بھارت میں چار مسلمانوں کو گائے مارنے کے شبہے میں ہلاک کیا گیا تو اس کے خلاف مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے آواز اٹھائی لیکن بی جے پی کے کچھ رہنماؤں نے اس پر مشتعل ہو کر جو بیان دیے اس سے آواز اٹھانے والے افراد کو بھی دھمکی آمیز پیغامات ملنے لگے۔رپورٹ میں گرین پیس انڈیا کا حوالہ دے کر کہا گیا ہے کہ بھارتی حکومت نے مذکورہ تنظیم کے علاوہ فورڈ فاؤنڈیشن سمیت کئی دیگر تنظیموں کو نشانہ بنایا ہے اور ان کی غیر ملکی امداد روک دی گئی ہے۔ بھارتی حکام پر تیستا سیتل واڈ اور جاوید آنند جیسے کارکنوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کا ذکر بھی ہے اور کہا گیا ہے کہ جب انھوں نے 2002 کے گجرات فسادات کے متاثرین کے لیے آواز اٹھائی تو انھیں’ملک مخالف’ قرار دے دیا گیا۔
بھارت کی حکومت جہاں عالمی معاملات میں اپنے کردار میں اضافہ چاہتی ہے وہیں وہ ملک کے اندر حقوقِ انسانی کے حوالے سے صورتحال بہتر بنانے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔بھارت میں ہندو انتہا پسند گروپوں کے پیدا کردہ عدم برداشت کے ماحول میں مسلمان اور دیگر اقلیتیں مسلسل خوف کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں’ ان کے ساتھ دوسری جنگ عظیم سے قبل یورپ میں مقیم یہودیوں سے روا رکھا جانے والا سلوک کیا جا رہا ہے۔ مذہبی آزادی کیلئے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں اقلیتوں کے مذہبی حقوق کے تحفظ کیلئے کوئی ٹھوس قانونی نظام موجود نہیں ہے نہ ہی قانون نافذ کرنے والے ادارے اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کرنے والے ہندو رہنمائوں اور گروپوں کے خلاف کوئی کارروائی کرتے ہیں۔ اقلیتوں کو ہندو بلوائیوں سے محفوظ رکھنے کیلئے قانون سازی اور تبدیلی مذہب سے متعلق قوانین پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
گزشتہ ستمبر میں اڑیسہ میں فسادات کے دوران 40 عیسائیوں کی ہلاکت، ان کے چار ہزار گھروں اور 50 سے زیادہ عبادت گاہوں کو مسمار کئے جانے پر سخت تنقید کی گئی ہے گجرات میں مسلم کش فسادات کے بعد ریاستی حکومت نے بحالی کیلئے متاثرین کی کوئی مدد نہیں کی۔ بھارت میں مسلم رہنمائوں کی مسلسل وضاحتوں کے باوجود دہشت گردی کی کارروائیوں کو مسلمانوں سے منسوب کرنے کا تشویشناک سلسلہ جاری ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو بھارتی سکیورٹی اداروں کی طرف سے بڑے پیمانے پر امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ازم کے دعویدار ملک بھارت کو اپنی اقلیتوں کے ساتھ ایسا متعصبانہ رویہ اور امتیازی سلوک زیب نہیں دیتا۔بھارت میں مسلمانوں کی آبادی 28کروڑ کے قریب ہے جبکہ بھارت عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کررہا ہے اور یہ آبادی 17کروڑ بتا رہا ہے۔2001ء میں مذہب کی بنیاد پر اکٹھے کئے گئے اعداد و شمار کو 2015میں شائع کیا گیا ،14برس میں آبادی میں اضافہ یقینی تھا۔اقلیتوں کو دبا کر رکھنا اور ان کے حقوق غصب کرنا عالمی چارٹر کی سراسر خلاف ورزی ہے۔
مسلمانوں پر ملازمتوں کے دروازے بند کردیئے گئے ہیں۔بھارتی وزیر اعظم مودی کی مسلم دشمنی کسی سے مخفی نہیں ہے۔مودی حکومت میں پورے بھارت کے اندر مسلمانوں سمیت اقلیتیں انتہائی خوف و ہراس اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔مسلمانوں کی بستیوں اورکاروباری مراکز کو جلانے کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے۔مساجد اور چرچز کو نذر آتش کرنا ہندوانتہاپسند تنظیموں کا معمول بن چکا ہے۔ ان حالات میں عالمی برادری اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کا فرض ہے کہ وہ بھارت میں اقلیتوں کی حالت زار کا نوٹس لیں اور انہیں ہندئوں کے ظلم و جبر سے بچانے کیلئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ بھارت میں فوج ،پولیس ،انفارمیشن اور بینکنگ کے شعبے میں مسلمان نہ ہونے کے برابر ہیں۔بھارت میں آسام میں مسلمانوں کی آبادی سب سے زیادہ ہے۔
مگر مرکزی حکومت کا اصرار ہے کہ یہاں بنگلا دیش سے آکر مسلمان آباد ہورہے ہیںوہ بھارتی نہیں ہیں۔ بھارت کی طرف سے مسلم آبادی کے بارے میں پیش کردہ اعداد و شمار میں کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کو شامل نہیں کیا گیا جبکہ متنازعہ جموں و کشمیر واحد ریاست ہے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔نریندر مودی انتہا پسندانہ سوچ کی وجہ سے دنیا بھر میں رسوا ہو رہے ہیں۔بھارت جارحانہ پالیسی سے اجتناب کرتے ہوئے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ ترک کرے۔ بی جے پی کی حکومت میں بھارتی سیکولرزام کے لبادے سے ہندوازم برآمد ہوا ہے۔ کشمیر سمیت ہر خطہ میں نریندر مودی کو ذلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سلامتی کونسل بھارت کی ریاستی دہشت گردی پر خاموشی اختیار کرکے اپنی حیثیت متنازع بنا رہا ہے۔ ہندوستان میں اقلیتوں پر مظالم کا سلسلہ بھارت کو لے ڈوبے گا۔
تحریر : ممتاز حیدر
برائے رابطہ:03349755107