تحریر: ممتاز حیدر
انسانی حقوق کا عالمی دن اقوام متحدہ کے تحت ہر سال دس دسمبر کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کی وجہ تمام انسانوں کو مساوات کا پیغام دینا اور ظلم کے خلاف آواز کو بلند کرنا ہے۔افسوس کی بات ہے کہ عالمی دنیا نے انسانی حقوق کے حوالہ سے دوہرا معیار اپنا رکھا ہے۔ کشمیر، بھارت میں مسلمانوں پر مظالم ہوں تو کسی کو نظر نہیں آتے،اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی اداروں کے منہ کو چپ لگ جاتی ہے۔ درحقیقت مذہب اسلام انسانی حقوق کا محافظ ہے لیکن دشمنان دین اسلام کو دہشت گردی کے طور پر پیش کرنے کی ناکام ترین کوششیں کرتے آرہے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے نہتے مسلمانوں پر مظالم عالمی اداروں کی خاموشی مجرمانہ ہے۔نام نہاد انسانی حقوق کے عالمی ادارے اس دن کے حوالہ سے اپنی رپورٹس مرتب کرتے ہوئے مسلمانوں اور ان کے ملکوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔جس کی مثال ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ ہے۔جس میں ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ پاکستان میں حکومت اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ میں ناکام ہو گئی ہے۔
انسانی حقوق سے متعلق جاری کردہ سالانہ رپورٹ کی مزید تفصیلات کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 2014ء میں اقلیتوں پر حملے روکنے کے لئے کچھ نہیں کیا گیا حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہی۔ہیومن رائٹس کی رپورٹ میں پاکستان کو اقلیتیوں کے لئے غیر محفوظ ملک اور بھارت کو محفوظ ترین ملک کہا گیا۔حالانکہ بھارت میں جو اقلیتوں کے ساتھ ہو رہا ہے وہ ساری دنیا کے سامنے ہے ۔کبھی مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنایا جاتا ہے تو کبھی تعلیمی اداروں میں مسلمان بچوں کو زبردستی گیتا پڑھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔کبھی فسادات کے ذریعے مسلم کشی کی جاتی ہے تو کبھی مساجد کو شہید کر دیا جاتا ہے ۔اس کے مقابلے میںپاکستان میں اقلیتیں ہمیشہ محفوظ رہی ہیں۔ ان کی جان و مال ، عزت وآبرو اور عبادت گاہوں کی عوام کی طرف سے ہمیشہ حفاظت کا فریضہ سرانجام دیا گیاہے۔
ایک آدھ واقعہ کو بنیاد بنا کر انسانی حقوق اور اقلیتوں کے نام پر پاکستان کو بدنام کیا جارہا ہے۔ پاکستان آج بھی اقلیتوں کے لیے پوری دنیا سے محفوظ ملک ہے۔ پاکستان کا آئین اس بات کی ضمانت دیتاہے اور حکومت پابند ہے کہ وہ اقلیتوں کا تحفظ کرے۔ پاکستان میں اقلیتیں اپنے کاروبار میں ہرطرح آزاد ہیں۔ حتیٰ کہ اپنے مذاہب کے مطابق اپنی مذہبی و سماجی رسوم سرانجام دینے میں بھی آزاد ہیں۔ انہیں تنظیم سازی اور اجتماعات تک کی آزادی ہے۔
پاکستان میں اقلیتوں کو دوہرے ووٹ کا حق حاصل ہے۔ وہ نہ صرف پارلیمنٹ بلکہ فو ج اور حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز ہیں۔ اقلیتیں صرف پاکستان ہی نہیں پورے عالم اسلام میں محفوظ ہیں کیونکہ دین اسلام اس کا حکم دیتاہے۔ دین اسلام کسی ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کا قتل اور اسے فساد فی الارض قراردیتاہے۔ملت اسلامیہ کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کا ہمیشہ تحفظ ہواہے۔ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق نے بیت المقدس اور فلسطین کا قبضہ لینے کے موقع پر عیسائی پادریوں کی درخواست کے باوجودکہ چرچ میں نماز ادا کرلی جائے، اس سے انکار کردیا کہ کہیں بعد میں مسلمان اس جگہ کو مسجد نہ قرار دے دیں۔
حضرت عمر فاروق نے عیسائیوں ہی نہیں یہودیوں کو بھی فلسطین میں رہنے کی اجازت دی۔ سپین میں مسلمان آٹھ سو سال تک حکمران رہے لیکن کبھی اقلیتوں کو نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ یہودیوں کو بھی آزادی کے ساتھ پوری ریاست میں رہنے کی اجازت تھی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے عین حالت جنگ میں بھی اقلیتوں کا تحفظ کیا۔ خود برصغیر ہند کے اندر ایک ہزار سالہ مسلم دورِحکمرانی کے باوجود ہندوئوں کا اکثریت میں ہونا اس بات کا گواہ ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کے غیر محفوظ ہونے کا تاثر صرف مغربی میڈیا اور مغرب کے حکمران دیتے ہیں۔ متشرقین ، متعصب یہودی ، عیسائی اور ہندواس کا غلط اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کرتے ہیں جبکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ مسلمانوں کے حقوق کا دنیا میں استحصال کیا جاتاہے۔ مسلمانوں کی جان ومال دنیا کے بہت سارے علاقوں میں غیر محفوظ ہے۔ بھارت، کشمیر ، فلسطین مسلمانوں کا قتل عام پیش نظر رہے۔
بھارت میں بابری مسجد کی شہادت اور بھارتی صوبہ گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔ بھارت میں گجرات کے بعد ریاست مہاراشٹر اور اترپردیش میں بھی مسلم ہندو فسادات ہوئے۔ ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے جلگائوں میں مسجد پر حملہ کیا گیا اورمسلمانوں کے کئی مکانوں اور دوکانوں میں توڑ پھوڑ کی گئی ۔ بریلی میں بھی ایک مندر میں گائے کا گوشت پھینکے جانے کی افواہ پر شدید ہنگامہ آرائی کی گئی اور مسلمانوں کے گھروں پر حملے کر کے نقصان پہنچایا۔ بریلی میں ایک درجن سے زائد لوگ جبکہ جلگائوں میں تین پولیس اہلکاروں سمیت چھ افراد زخمی ہوئے۔ ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے کئی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا ۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست مہاراشٹر میں جلگائوں کے پچورا قصبہ میں مسلم ہندو لڑکوں کے باہمی معمولی تنازعہ پرفساد بھڑک اٹھا اور تین مسلمان زخمی ہو گئے۔ مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ چند شرپسندوںنے مسجد میں بھی توڑ پھوڑ کی۔ اسی طرح چار موٹر سائیکلوں، دوکاروں اور موٹر سائیکل رکشہ کو آگ لگا دی گئی۔ اس واقعہ میں تین پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ شر پسندوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست اترپردیش کے بریلی شہر میں بھی مبینہ طور پر مندر میں گوشت پھینکے جانے کی افواہ پر مسلمانوں پر حملے کئے گئے۔ بھارتی فورسز نے لوگوں کو منتشر کرنے کیلئے زبردست لاٹھی چارج کیااور آنسو گیس کے گولے پھینکے ۔ اس دوران پولیس کے روکنے پر انتہا پسندوںنے پولیس اہلکاروں پر بھی پتھرائو کیااور پولیس کی متعد د گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا۔مسلمانوں کے شعائر کی بھی دنیا بھر میں توہین کی جاتی ہے۔ نقاب اور پردہ کا دنیا اور خصوصاً مغرب میں مذاق اْڑایا جاتاہے۔ گوانتاناموبے میں قرآن پاک کی بے حرمتی ہوئی ،حجاب پر پابندی کے قوانین بنے ، مساجد کو نذر آتش کیا گیا۔
میناروں پر پابندی لگی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو صرف مسلمان ہونے کے جرم میں 86 سال قید ہوئی مگر انسانی حقوق کے علمبردار ادارے اور تنظیمیں خاموش رہیں۔ حد یہ ہے کہ خود پیغمبرِاسلام حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وسلم )کی توہین، آپ کی شانِ اقدس کے خلاف گستاخانہ خاکے ، کارٹون اور فلم تک بنا کر اس پر اصراربھی کیا جاتاہے اور اس کو اظہار آزادی قرار دیا جاتا ہے جبکہ مسلمان تمام انبیاء علیہم السلام کا ادب و احترام کرتے ہیں۔ اْن کی شانِ اقدس کے خلاف معمولی سی گستاخی بھی ایمان سے اخراج قرا ر دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے بارے میں نہ تو کوئی تعصب پایا جاتا ہے نہ ہی ان پر کسی قسم کی پابندیا ں ہیں۔ پاکستان میں اقلیتوں کا تنا سب تقریباً 3فیصد ہے اور آئین کے آرٹیکل 27کی رو سے یہ کسی بھی قسم کی ملازمت کے حقدار ہیں،کسی بھی تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اوریہ کہنا کہ ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی زیادتی ہو رہی ہے بذات خود سراسر زیادتی ہے۔ اگر بھارت، امریکہ اور انسانی حقوق کے بڑے دعویدار ممالک کے ساتھ ان کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو پاکستان اقلیتوں کیلئے ان ممالک سے کہیں زیادہ محفوظ ہے۔
تحریر: ممتاز حیدر
برائے رابطہ:03349755107