تحریر : شاہد شکیل
سمگلنگ چاہے منشیات کی ہو، ہتھیاروں کی یا انسانوں کی یہ ایک ناقابل تلافی جرم اور انسانی زندگیوں سے کھیلنے کے گھناؤنے کاروبار ہیں۔ منشیات کی سمگلنگ اور استعمال کئی خاندانوں کو تباہ کرتا ہے ،ہتھیاروں کے کھیل اور استعمال سے کئی خاندان بے موت مارے جاتے ہیں اور انسانی سمگلنگ کی اہم وجوہات کئی ریاستوں میں لاقانونیت ،انسانی حقوق کا استحصال اور جنگوں کا کوئی بھی ایشو ہو قوموں کو بے گھر کرنے کے بعد در بدر ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیتا ہے عام طور پر ان کاروباروں میں ملکی و غیر ملکی افراد ملوث ہوتے ہیں جنہیں ملک یا قوم کی پرواہ نہیں ہوتی ۔انٹر نیشنل لیول پر کئی تنظیمیں ان تینوں گھناؤنے بزنس کے بارے میں جانکاری رکھتی ہیں۔
اس میں ملوث ریاستوں اور اداروں کو تنبیہ بھی کی جاتی ہے کہ ان واقعات کو اپنے تہی کنٹرول کیا جائے نہیں تو جرائم میں اضافہ ہو گا۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق انسانی سمگلرز پناہ گزینوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں اور انہیں قسمت کے دھارے کھلے سمندر کے علاوہ یونانی جزیرے کوس تک پہنچانے کے بعد دوسرا راؤنڈ لگانے کیلئے لیبیا اور ترکی کے ساحلوں پر واپس پہنچ جاتے ہیں اس گھناؤنے عمل میں کئی ممالک کے انسانی سمگلرز مل جل کر کام کرتے ہیں اور کئی ریاستوں کے کوسٹ گارڈ روکاوٹ ڈالنے کی بجائے تماشائی بنے دیکھتے رہتے ہیں،رپورٹ میں بتایا گیا کہ مختلف ممالک اور طبقات سے تعلق رکھنے والے مہاجرین نے اپنی زندگی اور مستقبل کو ان سمگلروں کے حوالے کر دیا ہے جو ان مجبوروں سے مزدوری کروانے کے علاوہ استحصال بھی کرتے ہیں۔کئی ہفتوں سے کوس کے واقعات کو شہ سرخیوں میں نمایاں انداز میں بیان کیا جا رہا ہے۔
کیونکہ یہاں مقید پناہ گزین بے بس ، بے یارو مدد گار ، مجبور اور لاچار ہیں ان میں کئی افراد ظلم و ستم کے مارے ، مذہبی جنگ ، خانہ جنگی ،لاقانونیت اور بھوک و افلاس کا شکار ہو کر اپنی سر زمین چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور ان قسمت کے مارے انسانوں سے انسانی سمگلرز منشیات اور ہتھیاروں کی سمگلنگ سے زیادہ مال ودولت کما رہے ہیں ۔رپورٹ میں تفصیلاً بتایا گیا کہ پناہ گزینوں کو دو کیٹا گریز میں تبدیل کیا گیا ہے ،یونانی حکومت نے شامی اور فلسطینیوں کو سیاسی پناہ کیلئے فاسٹ ٹریک دیا ہے جس سے انہیں ریاست میں ہر جگہ آنے جانے کی اجازت ہے جبکہ دیگر ممالک کے باشندوں کو کوس میں روک لیا جاتا اور طویل انتظار کے بعد ان کی رجسٹریشن کی جاتی ہے اس سلسلے میں ان افراد کو متعدد بار پولیس سٹیشن حاضری دینا ہوتی ہے۔
جہاں پہلے سے ہی لمبی قطاریں ہوتی ہیں اور سب شدید گرمی میں اہل وعیال سمیت تمام دن کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ پاکستانیوں اور افغانیوں کو کوس کے علاوہ کسی دوسرے شہر مثلاً ایتھنز ، کلکس ، پتراس اور دیگر بڑے شہروں میں جانے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ یہی وہ شہر ہیں جہاں سے یورپ کے دیگر ممالک میں داخل ہونا آسان ہے مثلاً بذریعہ فیری یہ لوگ تھیسالونیکی سے بلغاریہ سفر کر سکتے ہیں اور انہی وجوہات کے پیش نظر ان پر پابندی عائد کی گئی ہے،لیکن افغانی اور پاکستانی کوس میں انسانی سمگلرز سے میل ملاپ کے بعد ڈیڑھ دو سو یورو کے عوض جعلی دستاویزات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں سمگلرز انہیں شامی یا فلسطینی جعلی شہریت کے دستاویزات بنا دیتے ہیں اور یہ لوگ کوسٹ گارڈ کو چکمہ دینے کے بعد یورپ میں داخل ہو جاتے ہیں ، کوسٹ گارڈ ز کا کہنا ہے دوران چیکنگ کئی بار دیکھا گیا کہ کئی افغانی سیاحوں کے جھرمٹ میں گم ہو کر کوس سے فرار ہونا چاہتے ہیں جب ان سے پاسپورٹ کا مطالبہ کیا جائے تو کئی آزادانہ طور پر تمام دستاویزات حکام کو پیش کرتے ہیں جبکہ جعلی افراد بھاگنے کی کوشش میں گرفتار کر لئے جاتے ہیں۔
دوسری طرف حکام کی نااہلی سے اصل دستاویزات رکھنے والوں کو پولیس سٹیشن کے کئی چکر لگانے پڑتے ہیں اور بہ مشکل راہداری دی جاتی ہے۔پناہ گزینوں کا کہنا ہے سمگلرز ہمیں ایتھنز پہنچانے کا وعدہ کرتے ہیں لیکن یونانی جزیرے کوس میں پھینک کر فرار ہوجاتے ہیں ،ہم لوگ بے خبر ہونے کے علاوہ سمگلرز پر اعتبار کرتے ہیں کہ کم سے کم سمندر میں تو نہیں پھینک دئے جائیں گے اور کوس پہنچ کر اسے ایتھنز سمجھ کر فیری سے اتر جاتے ہیںکئی کلو میٹر شدید گرمی میں پیدل چلنے کے بعد تھک ہار کر اپنی قسمت کو روتے ہیں ۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ یونانی حکومت جانتی ہے کہ انسانی سمگلرز پناہ گزینوں سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں لیکن کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کرتا دوسری طرف ترکی حکومت بھی باخبر ہے کہ بوڈرم کے ساحل پر ہر شب درجنوں کی تعداد میں پناہ گزین جمع ہوتے ہیں اور کشتیوں میں سوار ہونے کی کوشش میں زخمی ہونے کے علاوہ موت کا شکار بھی ہوتے ہیں لیکن کوئی مداخلت نہیں کرتا کیونکہ وہ پناہ گزینوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
کئی پناہ گزین یونان پہنچ کر مزید سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں اور مستقل قیام چاہتے ہیں اس صورت میں یونانی کاشتکار ان غیر قانونی تارکین وطن کو تقریباً غلام بنا لیتے ہیں کم سے کم اجرت میں بارہ سے چودہ گھنٹے محنت اور مشقت کی مزدوری کرواتے ہیں جن میں سبزیوں کی کاشت اور کھدائی وغیرہ شامل ہیں انہیں خستہ و بوسیدہ عمارتوں یا ٹینٹوں میں رکھا جاتا ہے ،معقول غذا اور علاج کا انتظام نہیں ہوتا اور حکومت سب کچھ جانتے ہوئے بھی مداخلت نہیں کرتی،یہ لوگ نہ آگے جا سکتے ہیں اور نہ پیچھے اور اگر بھاگ کر کہیں جانے کی کوشش کرتے ہیں تو غیر قانونی سمجھ کر گرفتار کر لیا جاتا ہے یا کئی لوگ دوبارہ انسانی سمگلرز سے رابطہ کرتے ہیں تو وہ کسی قسم کی امداد نہیں کرتے۔ایک طرف یورپین یونین تارکین وطن کو خوش آمدید کہتی ہے اور جیسے ہی یہ لوگ مختلف ممالک میں داخل ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو مصیبتوں کے پہاڑ ان کے منتظر ہوتے ہیں۔
آج کل یورپ کے تمام ممالک میں پناہ گزینوں کا سیلاب امڈ آیا ہے اور حکومتیں سر جوڑے بیٹھی ہیں کہ کون سا لائحہ عمل یا قوانین بنائے جائیں کہ سب کو ان کے حقوق ملیں، اس سلسلے میں جرمنی اور برطانیہ کے علاوہ فرانس نے فوری طور پر بالقان ممالک کے باشندوں کو ملک بدر کرنے کے سخت قوانین بنائے ہیں یورپی کمیشن کے مطابق مشرقی یورپ کے تارکین وطن کو ان کے ممالک بھیجنے سے کئی مسائل کا حل نکل آئے گا اور سب سے پہلے شامی اور فلسطینیوں کیلئے محفوظ مقامات کا انتظام لازمی ہے۔
تحریر : شاہد شکیل