تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال
اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق 2 اکتوبر کو عالمی یوم عدم تشدد کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس قرارداد کی 143 رکن ممالک نے حمایت کی اس دن کو منانے کا مقصد مختلف ممالک،اقوام کے درمیان قیام امن کے لیے ،برداشت کو فروغ دینے کے لیے اور عدم تشدد کے جذبات کو عام کرنا ہے ،تاکہ عالمی مسائل اور تنازعات کو باہمی بات چیت سے حل کیا جا سکے ۔بھارت کی تحریک آزادی کے رہنما مہاتما گاندھی کے جنم دن کو عالمی یوم عدم تشدد کے طور پر منایا جاتا ہے۔
یہ اقوام متحدہ کا کشمیر کے ساتھ مذاق ہے ۔کیونکہ جس مہاتما گاندھی کے نام پر دنیا میں عدم تشدد کا دن منایا جاتا ہے اسی کے نام لیوا (بھارت )کشمیریوں کو گزشتہ برسوں سے محکوم بنائے ہوئے ہیں، اس خطہ جنت نظیر میں بھارت نے لرزا دینے والے تشدد کو روا رکھا ہے بھارت کے رونگٹے کھڑے کر دینے والے مظالم سے آنکھیں بند کر کے اس دن کو ایک بھارتی رہنما کے جنم دن کے طور پر منایا جانا ایک مذاق نہیں تو اور کیا ہے، دوسری طرف کشمیر کے علاوہ درجنوں اقوام کو بھارت کے ریاستی جبر کا سامنا ہے جن میں سکھ قوم بھی شامل ہیں ۔
چونکہ عدم تشدد کا عالمی دن مہاتما گاندھی کے جنم دن کی مناسبت سے منایا جاتا ہے اس لیے مناسب ہے کہ ان کے بارے میں مختصر سا تعارف دیا جائے ۔یہ 1914 کی بات ہے کہ 45 سالہ موہن داس کرم چند گاندھی جنوبی افریقہ میں ایک ریلوے ٹرین میں سوار ہوا ،ٹرین میں پہلے سے سوار دو گوروں نے اسے تشددکے بعد ٹرین سے باہر پھینک دیا اس کا جرم یہ تھا کہ وہ ایک غلام ملک بھارت کا باسی تھا ۔اس واقعہ نے اس کی زندگی بدل دی۔یہ کمزور سا شخص بعد میں بانی بھارت کہلایا ۔اب بھارت میں انہیں مہاتما گاندھی، گاندھی جی اور باپو کے نام سے یادکیا جاتا ہے۔
انھوں نے 2 اکتوبر 1869 میں پوربندر ریاست گجرات میںجنم لیا۔ابتدائی تعلیم مقامی سکول میں حاصل کی مزید تعلیم راج کوٹ میں ،اعلی تعلیم انگلینڈ ،بیرسٹر کی ڈگری لے کر لوٹے ۔اور وکالت کے پیشے سے وابستہ ہو گئے۔بعد ازاں نگری نگری گھومے ،جنوبی افریقہ میں طویل عرصہ رہے ،وہاں ٹرین والا حادثہ پیش آیا ۔ 1915 میں گاندھی جی واپس بھارت آ گئے کانگریس سے وابستگی ۔ بہرکیف 1920 میں گاندھی جی کانگریس کے صدر بنے اور مختلف انداز میں بھارت کی آزادی کی تحاریک چلائیں جس میں سول نافرمانی کی تحریک 1920 میں چلائی اور عدم تشدد کا فلسفہ پیش کیا۔اورآخر کا ر14اور 15 اگست 1947 کی درمیانی شب پاکستان اور بھارت الگ ممالک کے طور پر معرض وجود میں آ گئے ۔ برطانوی سامراج سے آزادی مل گئی۔گاندھی جی کے طرز سیاست و نظریات سے تمام تر اختلافات کے باوجود بھارت کی تقسیم مخالف RSS کے رکن ناتھو رام کے ہاتھوں 30 جنوری 1948کو گاندھی جی کا قتل ہوا۔اس وقت گاندھی جی کی عمر 78 برس 4 ماہ تھی۔دکھ اس بات کا ہے کہ گاندھی جی پیروکار کشمیرمیں تشددکا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔
عدم تشدد کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے اپنی منزل کو پالینے والے موجودہ عہد میں قائداعظم، مہاتماگاندھی،ماوزے تنگ، سویکارنو، امام خمینی، نیلسن منڈیلا کے نام قابل ذکر ہیں ۔بہر کیف یہ بات درست ہے کہ تاریخ طاقتور ممالک کے کمزور قوموں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے بھری پڑی ہے ۔موجودہ عہد میں بھی تشدد کا بازار گرم ہے ،گوانتا نو موبے کا جیل خانہ اقوام متحدہ کے عین ناک کے نیچے قائم ہے ۔عراق ،افغانستان،بوسنیااس طرح کی درجنوں مثالیں ہیں ۔تشدد پسند ملک و قوم کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ خوف اور دہشت کے ذریعے لوگوں کے جسموں کو تو غلام تو بنایا جاسکتا ہے لیکن ان کے دل ودماغ کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
تشدد کامطلب ہے اپنے نظریہ کو طاقت کے ذریعے دوسروں پر مسلط کرنا ۔کسی بھی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے دوسروں کی جان ومال کو نقصان پہنچاناوغیرہ تشدد سے فساد فی الارض پھیلتا ہے قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر اس جانب توجہ دلائی گی ہے ۔جس پر عمل کرنے سے خدا کی زمین میں فساد اور بدامنی نہیں پھیلتی۔ہمارے آقا ۖ کو اللہ تعالی نے”اور (اے رسولِ ) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر”حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس آیت کریمہ میں تمام کائنات کے لئے سراپا رحمت قرار دیا گیا یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا گیا۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ پر جو پتھر برسانے والی قوم ہے (مشرکین و کفار) اس کے لئے بددعا کریں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا”میں بددعا کرنے والا بن کر مبعوث نہیں ہوا بلکہ میں تو سراپا رحمت بن کر مبعوث ہوا ہوں”اسی طرح دوسری روایت کے الفاظ ہیں”میں سراپا رحمت بناکر بھیجا گیا ہوں اور کسی کے لئے عذاب یا اذیت بناکر نہیں بھیجا گیا”۔انسانیت سے محبت اور عدم تشدد اسلام کی تعلیمات ہیںمتفق علیہ حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ میں تھے تو میدان جنگ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے خبر دی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کچھ عورتیں اور کچھ بچے بھی قتل ہوگئے ہیں جو کہ کافر تھے آپ ۖ نے فرمایا: خبردار! میدان جنگ میں بھی کافروں کے عورتوں اور بچوں کو قتل نہیں کر سکتے ”جبکہ آج پاکستان کی صورت حال یہ ہے کہ سکولوں کے اندر بچوں کو قتل کردیں اور سمجھیں کہ یہ جہاد ہے ۔ یہ ہرگز جہاد نہیں ہے۔
سیاسی جماعتیں، پارلیمنٹ اور خاص طور پر افواج پاکستان پر امتحان کا وقت ہے۔اگر ہم دہشت گردی سے ملک کو بچانا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ہمیں دہشت گردی کو جڑ سے اکھیڑ کر پھینکنا ہوگا ۔اسی طرح ریاست کو بھی عدم تشددکا راستہ اپنانا چاہیے کتنے دکھ کی بات ہے کہ ماڈل ٹائون میں حکمران انہوں نے اپنی پولیس کے ذریعے اس قوم کی دو مائیں، دو بیٹیاں جو دروازے پر کھڑی تھیں کو سامنے سیدھی گولیاں مار کر شہید کردیا اور پیٹ میں جو بچہ تھا اس کو بھی شہید کردیا اور بوڑھوں کو سفید داڑھی کے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا۔بلی پر ظلم کیا تو دوزخ نصیب ہوئی، کتے کی جان بچائی تو جنت ملی، یہ ہے اسلام کا تصور رحمت، امن اور عدم تشدد کا دین جس پر ہمارے ملک میں عمل نہیں ہے۔آقا ۖ نے فرمایا جانور ہو، پرندہ ہو، انسان ہو جس میں بھی روح ہے اس طرح پکڑ کر اس کو ہدف بنانا اور اس کو مارنا اس پر اللہ اور اس کے رسول کی لعنت ہے اور جس پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لعنت ہو اس پر جنت حرام اور دوزخ واجب ہوجاتی ہے ۔
آج ہمارے معاشرے میں عدم برداشت ،تشددپروانچڑھ رہا ہے ۔درجنوں اقسام کا تشدد ایک دوسرے سے روا رکھا جا رہا ہے ۔پولیس یا ریاست کا تشدد،غنڈے یا بدمعاشوں کا تشدد،کمزور پر طاقت ور کا تشدد ،ذہنی ،جسمانی ،نفسیاتی ،سماجی تشددغرض سارا معاشرہ اس وقت دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔اس کا حل صرف ایک ہے اور وہ ہے دین اسلام کے اصولوں کے مطابق عمل ان کا نفاذ جس سے معاشرہ پرامن بن سکتا ہے۔
تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال