تحریر : فضل خالق خان
صوبہ پنجاب کے علاقے یوحنا آباد میں چرچ میں ہونے والے دھماکوں میں ہلاکتوں کے بعد بلوائیوں کی جانب سے ہونے والے واقعات پہلے ہونے والے واقعہ سے زیادہ دل خراش اور انسانیت سوز ثابت ہورہے ہیں ۔ جس میں پے درپے معصوم انسان مذہب کے نام پر بربر یت کے بھینٹ چڑھ رہے ہیں ۔ چرچ دھماکوں میں بے گناہ 15 انسانوں کا قتل اور 70 سے زائد افراد کے زخمی ہونے کے واقعے پر ملک کے ہر ذی شعور شہری کا دل مغموم ہے لیکن اس کے بعد زندہ انسانوں کو جلانے کے واقعے پر اب تک حکومت سمیت ہیومن رائٹس کے نام نہاد اداروں ، این جی اوز کی خاموشی چہ معنی دارد؟ہم نے روز اول ہی رائے قائم کردی تھی کہ جلنے والے معصوم لوگ ہوں گے ۔ کیوں کہ اب تک کے ہونے والے ایسے واقعات میں دھماکے کرنے والے اتنے بے وقوف نہیں ہوتے کہ وہ نہتے موٹر سائیکلوں پر بھیڑ کے بیچ میں موجود ہونگے۔مقتولین میں سے ایک کے ورثاء کا منظر عام پر آنا اور حقائق بیان کرنے سے رونگٹھے کھڑے ہوگئے ۔دل سوچ میں ڈوب گیا کہ کوئی انسان اتنا بھی سنگدل ہوسکتا ہے کہ اپنے جیسے انسان پر پیٹرول چھڑک کر اسے کوئلہ بنادے۔
ان سے زیادہ سنگدل وہ لوگ نظر آرہے ہیں جو ان جلتے ہوئے انسانوں کے تڑپنے اور کوئلہ بننے کے مناظر کو اپنے موبائلوں میں وڈیو بنا کر محفوظ کررہے ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ خودکش دھماکوں میں مذہبی عباد ت گاہوں کو نشانہ بنانا غلط ہے کہ اسلام نے اس کی اجازت نہیں دی ہے چہ جائیکہ ! ان مقامات میں انسانوں کے پرخچے اُڑائے جائیں ۔دین اسلام نے ہمیشہ اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کا درس دیا ہے ۔ یہاں سوال یہ اُبھرتا ہے کہ اگر دہشت گردی بربریت ہے تو جن زندہ انسانوں کی سانسیں آگ لگا کر بند کردی گئیں ہیں یہ کیا ہے ؟ یقینا یہ اس سے بڑھ کر بربریت کی انتہا ہے جس پر اب حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان افراد کو جو اس واقعے میں ملوث ہیں کو پکڑ کر کیفر کردار کو پہنچایا جائے۔
کیونکہ موقع پر موجود ہر کوئی جانتا ہے کہ اپنی گاڑی سے پیٹرول کس نے نکالا مقتولین کو پکڑا کس نے اور آگ کس نے لگائی ۔لیکن ان سب کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کو بھی سزا دی جائے جوان تڑپتے جسموں کے فوٹیج بنار ہے تھے لیکن کسی کوانہیں بچانے کی توفیق نصیب نہیں ہو سکی کہ سب قاتل بنے ہوئے تھے۔ یقینا مرنے والوں کے ساتھ ان بلوائیوں میں سے کسی کی ذاتی دُشمنی ہوگی جو انہوں نے اس موقع پر نکال لی ہے ۔ یہاں مجھے ایک بہت پرانا واقعہ یاد آرہا ہے کہ کسی گائوں میں ایک خان، نواب ، وڈیرے کا د ل کسی غریب کی خوبصورت بیوی پر پسیج گیا۔ اسے حاصل کرنے کے لئے اس بد بخت نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ اس غریب کے بارے میں مشہور کرادیا کہ یہ معصوم بچوں کو ورغلاکر لے جاتا ہے اور بعد میںقتل کرکے ان کا گوشت کھاتا ہے یعنی آدم خور ہے جس پر اس بے گناہ شخص کو حقائق معلوم کئے بغیر قتل کیا گیا۔تادم تحریراس بات پر حیران ہوں کہ اس سے قبل پنجاب ہی کے ایک علاقے کوٹ رادھا کشن میں ایک مسیحی جوڑے کو بھٹی میں جلانے کے واقعے میں درجنوں مسلم افراد کو گرفتار کرنے کے علاوہ اس واقعے کو اسلام کے خلاف استعمال کرتے ہوئے خوب اُچھالا گیا تھا۔
اب اس واقعے میں مسیحیوں کے ہاتھوں بے گناہ مسلم نوجوان کی یوں ہلاکت پر وہ نام نہاد انسانیت کے علمبردار کہاں چھپے بیٹھے ہیں ۔کیا یہ اقدام ان کو بربر یت نظر نہیںآتا ۔ مرنے والے کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ نعیم ایک محنت کش اور حافظ قرآن تھا جو اپنے خاندان کے لئے رزق حلال کمانے کی جستجو میں گھر سے نکلاتھا اور ظالموں نے اس کا لاشہ گھر بھیج دیا ۔ واقعے پر ایک مسیحی میڈیا سے محو گفتگو تھا کہ یسوع مسیح نے ہمیں امن کا درس دیا ہے ہم بھی سمجھتے ہیں کہ دین اسلام سمیت کسی بھی مذہب نے اپنے پیروکاروں کو تشدد کا درس نہیں دیا ہے۔ جنہوں نے یہ قبیح فعل کیا ہے ان کو اپنے عقیدے کے مطابق اس جہاں کے بنانے والے کے سامنے ایک نہ ایک دن اپنے اعمال کا جواب دینا ہوگا ۔لیکن یہاں مسیح یسوع کے پیروکاروں سے میرا یہی سوال ہے کہ جن زندہ انسانوں کو جلایا گیا اس کی اجازت تم کو کس نے دی تھی؟۔سول سوسائٹی ، نام نہاد سیکولر این جی اوز اور ہیومن رائٹس کے نام پر انسانیت کی توہین کرنے والے اب کیوں اس دل خراش واقعے پر خاموش ہیں؟
انسانوں کو زندہ جلانا کس مذہب کے افکار ہیں؟جو بھی جانتا ہے میری رہنمائی کی جائے ۔ چرچ پر حملہ اوراس میں بے گناہ انسانوں کے قتل عام کرنے والوں کی ہم مذمت کرتے ہیں لیکن اس بربریت کرنے والوں کو ہم ان سے بڑھ کر ظالم سمجھتے ہیں ۔ مقتول نعیم کے قتل میں مقامی انتظامیہ بھی پوری طرح ذمہ دار ہے کیوںکہ انہوں نے او ل تو اُسے بلوائیوں کے نرغے سے اپنے قبضے میں لیا تھا او ر لواحقین کے مطابق اس نے پولیس کو اپنی شناخت بھی کرائی تھی پھر پولیس نے اُسے زیر حراست کیوں رکھا اُسے چھوڑا کیوں نہیں جس پر بلوائیوں نے ایک بار پھر حملہ کرکے نعیم کو پولیس کے قبضے سے لے کر اُسے جلایا ۔ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ یوحنا آباد کے واقعے میںایلومینیم اور شیشے کا کام کرنے اور اپنے لواحقین کے لئے رزق حلا ل کمانے والے کو زندگی سے محروم کرنے والے خود ہی فریق خود ہی منصف بننے الوں کو نشان عبرت بنائیں۔
یوحنا آباد میں پولیس کی فرض شناسی کے ڈھنڈورے پیٹنے کی بہ جائے بے گناہوں کی ہلاکت میں ان سے باز پرس کی جائے۔ اس کے علاوہ مرنے والوں کے غم کی تلافی تو نہیں ہوسکتی لیکن حکومت لواحقین کا غم ہلکا کرنے اور متوفی کی جانب سے خاندان کے معاشی ضروریات کو پورا کرنے کی ضمن میں خصوصی اقدامات کرے تاکہ ان کی کچھ نہ کچھ داد رسی ہوسکے اس کے ساتھ ساتھ دوسرے شخص کی بھی تلاش کی جائے ہمیں یقین ہے کہ وہ بھی نعیم کی طرح بے گناہ ہی ہوگا۔
تحریر : فضل خالق خان