تحریر : مسز جمشید خاکوانی
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گدھوں کی تعداد پچاس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے دنیا میں صرف چار ممالک گدھوں کے گوشت کے شوقین ہیںجن کا تعلق افریقہ سے ہے ۔اور غالباً افریقہ کے ممالک میں ہی آدم خور قبائل بھی بستے ہیں جن کے قصے ہم بچپن میں سنا کرتے تھے کہ کیسے لوگوں کو پکڑتے ہیں درختوں سے باندھ کے ” جھینگا لالہ ” گاتے ہوئے انہیں نیزے بھالے مارتے ہیں اور پھر ان کا گوشت کھاتے ہیں اللہ جانے بھون کر کھاتے یا کچا یہ تو معلوم نہیں لیکن آجکل جو نظارے دیکھنے کو مل رہے ہیں بہت ہی خوفناک ہیں ان میں گدھے کا گوشت کھانے والی خبر تو مہت معمولی سی لگتی ہے ۔آج میں نے کسی وال پہ لگی ایک وڈیو دیکھی ،دیکھی کیا، دو منظر دیکھ کر ہی میں تو دہل گئی اس میں گٹھڑیوں میں باندھے گئے مردہ بچے لائے گئے ان میں سیاہ فام بھی تھے سفید بھی۔
چند عورتیں اور مرد جو وہاں موجود تھے انہوں نے گٹھڑیاں کھولیں عورتوں کے ہاتھ میں گنڈاسے ٹائپ چمکیلے ہتھیار تھے وہ ان سے بچوں کے ٹانگوں بازئوں سے گوشت کے پارچے اتارتی گئیں اور بقیہ ہڈیاں وہاں موجود گدھوں کے آگے ڈالتی گئیں ،موٹے موٹے گدھ منٹوں میں بقایاجات چٹ کر گئے ۔یہ ھولناک مناظر خدا کسی کو نہ دکھائے سوال یہ پیدا ہوتا کیا انسان اب اتنا وحشی ہو گیا ہے یا میڈیا اب یہ مناظر دکھانے لگا ہے جو دنیا کی نظر سے اوجھل تھے ۔عاملوں اور باووں کی وجہ سے بھی ایسے کاموں کو مہمیز ملی ہے ان کو بھی دہشت گردی میں شمار کیا جانا چاہیئیکہ وہ بے وقوف عورتوں کو ایسی متیں دیتے ہیں جن کی وجہ سے وہ جرائم کا ارتکاب کرتی ہیں اس میں مرد بھی پیچھے نہیں رہتے
کچھ عرصہ قبل مردہ عورتوں کے بال کاٹتے اور انکے کفن اتارتے لاڑکانہ کے قبرستان سے کچھ لوگ پکڑے گئے تھے لیکن یہ خبر اخبار میں بہت غیر اہم جگہ لگائی گئی ۔ایک اور خبر بھی کبھی اخبارات میں جگہ نہ پا سکی کہ تقریباً چار سال پہلے کھاریاں کینٹ کے کچھ غیر آباد کوارٹروں سے گدھوں اور بکروں کے کٹے ہوئے سر ملے تھے مجھے یہ بات ایک بریگیڈیر صاحب کی مسز نے بتائی کہ وہاں پھر صفائی کروائی گئی قران خوانی بھی ہوئی کیونکہ شواہد سے ایسا لگتا تھا کسی نے سفلی علم کروایا ہے ۔ویسے بھی کیانی صاحب کا دور تھا جب کسی سانحے پر ککھ نہیں ہلتا تھا تو لوگوں میں یہ چہ مگوئیاں عام ہو گئی تھیں کہ بھارتیوں نے پاک فوج پہ سفلی علم کرا دیا ہے کبھی ستو پینے کے طعنے ملتے تھے بحر حال جو بھی تھا
اللہ نے کرم کیا کہ جنرل راحیل شریف کی قیادت نصیب ہوئی فوج کو اور آج ہم فخر کر رہے ہیں کہ کوئی ان درندوں کو روکنے والا بھی ہے ایک آدھ حملہ بھی کامیاب ہو جائے تو لوگ پوچھتے ہیں ہمارے ملک میں کیا ہو رہا ہے لیکن روزانہ کتنے حملے ناکام بنائے جا رہے ہیں یہ کوئی نہیں سوچتا کراچی سے لے کر کابل تک ایک چو مکھی لڑ رہی ہے فوج ،درمیانی واسطے اور سہولت کار اتنے بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہیں کہ لگتا ہے ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکے گا پھر اللہ کے فضل سے انکی ڈور کٹ ہی جاتی ہے کوئی مجھے سمجھائے ڈیروں پر لوگ ہتھیار اور درندے کیوں رکھنے لگے تاجی کھوکھر کے ڈیرے سے راکٹ لانچر اور شیر بھی برامد ہوئے ہیں چلو شیر تو پالتو ہو سکتا ہے
مگر راکٹ لانچر اور دوسرا بھاری بھرکم اسلحہ رکھنے کی کیا تک ہے سٹیٹ کے اندر سٹیٹ بنانا جرم نہیں کیا لوگ کہتے تھے نائن زیرو پر کبھی چھاپہ نہیں پڑ سکتا ۔چھاپا پڑا؟لوگ کہتے تھے تاجی کھوکھر پنڈی کا ڈان ہے اس کو کوئی نہیں پکڑ سکتا آخر پکڑا گیا اصل میں لوگ اپنے خوف میں یہ بھول جاتے ہیں کہ اوپر اللہ کی ذات بھی ہے جو اپنے بندوں کی مدد کے لیئے کسی کو بھیج دیتی ہے اور ایسے دل والا وہ کام بھی کر جاتا ہے جو دوسروں کو ناممکن لگتے ہیں۔
بات گدھوں سے شروع ہوئی تھی کل پرسوں کی بات ہے ایک کام کرنے والی ماسی کا میاں گدھا ریڑھی چلاتا ہے کہنے لگی ہمارے گدھے کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی ہم نے بڑا علاج کیا جڑی نہیں آج میرا گھر والا گدھا بیچنے گیا ہے اوہ میرے خدایا بے ساختہ میرے منہ سے نکلا ،وہ خریدنے والا اس کا کیا کرے گا؟کہتی جو بھی کرے ہمیں تو اچھے پیسے مل رہے ہیںہنس کر کہنے لگی اس سے بھی اچھے جتنے کا لیا تھا ۔۔۔ضرور کاٹ کے لوگوں کو کھلائیں گے اور کھال تو ویسے ہی مہنگی بکتی ہے کیونکہ میرے علم کے مطابق عورتوں کے میک اپ کی اکثر چیزیں گدھے کی کھال سے بنتی ہیں
(شائد اسی لیئے میک اپ زدہ چہرہ دیکھتے ہی مرد گدھے بن جاتے ہیں )ایک عورت کو کسی عامل نے بتایا تم گدھے کا سر پکا کر اپنے میاں کو کھلائو تو وہ تمھارا مطیع و فرمانبردار ہو جائے گا اس عورت نے اپنی نوکرانی کے ہاتھ گدھے کا سر منگوایا جب وہ سر طشت میں رکھے دیوڑھی میں داکل ہوئی عین اسی وقت اس کا شوہر گھر میں داخل ہوا اس نے پوچھا یہ سر یہاں کیسے آیا بیوی جلدی سے بولی ایک چیل اٹھا کے جا رہی تھی اس کے منہ سے گر گیا ہے شوہر نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا ٹھیک ہے اب اس کو باہر پھینکوا دو ۔عورت نے نوکرانی سے کہا جائو باہر پھینک آئو یہ تو اسے دیکھ کر ہی گدھا بن گیا ہے۔
ادھر ہمارے علاقے میں سلامو نام کا آدمی ابلے ہوئے چنے بیچا کرتا تھا اب وہ کافی امیر ہو گیا ہے کچھ روز پہلے پکڑا گیا میرے میا ںبتا رہے تھے گیارہ سال سے لوگوں کو گدھے کھلا کر مال بنا رہا تھا یعنی مال بنانے کے ایسے ایسے طریقے لوگوں نے ایجاد کر لیئے ہیں حیرت ہوتی ہے انسانیت بھی تو اس وقت تک زندہ رہتی ہے جب تک اندر کا انسان نہ مرے انسان مر گئے ہیں لاشیں باقی ہیں اب ان لاشوں میں شیطان گھس گئے ہیں ۔انسانوں میں شرم ہوتی ہے حیا ہوتی ہے درد ہوتا ہے وفا ہوتی ہے آج کا انسان کہتا ہے ہمیں کیا معلوم یہ کیا ہوتی ہے ؟جس طرح یہ بار بار آکے حملہ آور ہوتے ہیں ان کو فوج اپنی جانیں دے کر روک رہی ہے
کیونکہ ان کا سپہ سالار مستعد کھڑا ہے کس منہ سے لوگ کہتے ہیں کہ یہ وزیرستان آپریشن کا ردعمل ہے اگر ایسا ہوتا تو جنرل کیانی کے دور میں جتنے اٹیک ہوئے وہ نہ ہوتے تب تو پاکستان کو لا وارث سمجھ لیا گیا تھا زرداری کا سنہری دور تھا رحمن ملک کرتا دھرتا تھے جمہوریت کا فُل ایکشن تھا فوج بیرکوں تک محدود تھی مگر روز حملے ہوتے تھے اب تو ہماری باری ہے انسان بھی تب ہی بچیں گے جب انسانیت بچے گی
تحریر : مسز جمشید خاکوانی