تحریر: راجہ محمد یونس
مکرمی! 11 فروری 1984 کا دن تاریخ جدوجہد انسانیت میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ایک ایسے وقت میں تحریک حریت کشمیر کی شمع بجھنے لگی غلامی کی سیاہ رات کو آزادی کی تابناک صبح کے اجالے میں بدلنے کی کوشش ماند پڑنے لگی اور کشمیرکی وارث نئی نسل مایوسیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبنے لگی تو ایسے نامساعد حالات میں مقبول بٹ کی ذات ضیائے صبح کے اجالے کی نوید بن گئی۔
اس عظیم محب وطن نے کشمیر کے باسیوں کو ہمیشہ اپنے فرض کی ادائیگی کیلئے بیدار رکھا اس کی شہادت جوالا مکھی بن گئی موجودہ تحریک آزادی کی چنگاری اس روز سلگ اٹھی تھی جب عمل و کردار کے اس پیکر کو تہاڑ جیل دہلی میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا وہ اک چراغ تھا جس سے چراغ جلتے گئے، اندھیرے چھٹتے گئے ،قدم بڑھتے گئے ….
ہر نوجوان دل کی تمنا میں بسا ہوں
کہتا ہے کون دوستو میں تم سے جدا ہوں
آتا ہے جہاں موت کے ماتھے پر پسینہ
اس جگہ کئی بار ،کئی بار گیا ہوں
جس رات کے پڑتے ہی کئی لوگ مرے تھے
اس رات کے خوں ناب اندھیروں میں جیا ہوں
میں جھوٹ کے سورج سے نہیں لایا ہوں کرنیں
میں نور صداقت کیلئے خود ہی جلا ہوں
آج کشمیر میں کوئی گھر ایسا نہیں جہاں مقبول بٹ نے جنم نہ لیا ہو اور آزادی کو وہ متبرک مشن پرورش نہ پا رہا ہو جو دھرتی کے ہر سپوت کی منزل ہے ایک آزاد اسلامی ریاست کی صورت میں، ایک فلاحی معاشرے کا قیام جس میں بلا لحاظ شہریوں کو ان کے حقوق حاصل ہوں، جہاں کسی تعصب کے کوئی گنجائش نہ ہو اور جہاں ریاست کا ہر مکین بھر پور عزت نفس اور وقار کے ساتھ زندکی گزار سکے اور اپنی منزل تک پہنچنے تک انشاءاللہ دعوت و جہاد کا یہ کافلہ یوں ہی رواں دواں رہے گا11 فروری کا دن یوم تجدید عہد ہے کہ ہم اپنی جنگ جاری رکھیں گے
تحریر: راجہ محمد یونس
سینیر نائب صدر کشمیر فریڈم موومنٹ – سعودی عرب زون