تحریر : اختر سردار چودھری، کسووال
کوئی بھی قوم، ملک اپنے اہم واقعات کو ان ایام کو جن میں یہ واقعات رونما ہوئے ہوں ہمیشہ یاد رکھتی ہے لیکن دن منانے کا آغاز کسی حد تک مغرب نے ہی کیا۔ ان میں کچھ دن ایسے ہیں جو صرف مغرب کی ہی نمائندگی کرتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو پوری دنیا سے تعلق رکھتے ہیں، ہمارے ہاں ایک طبقہ ان دنوں کو منانے کے خلاف ہے دوسرا طبقہ زور و شور سے مناتا ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ ان ایام میں سے بہت سے دن ایسے ہیں جن کو ہمارے ہاں منایا جانا چاہیے اور بہت سے ایسے ہیں جن کو نہیں منانا چاہیے دیکھا جائے تو ایک حد تک اس میں قصور ہمارے ملک کے صاحب اختیار طبقے (حکومت) کا ہے وہ فیصلہ کرے کہ کون سے ایام منانے چاہیے اور کون سے نہیں ۔آج جس دن کے حوالے سے بات کرنے جا رہا ہوں وہ ہے “مچھروں کا عالمی دن “میرے خیال میں اس دن کو منانا چاہیے ۔جو کہ ہر سال اگست کی 20 کو منایا جاتا ہے ۔اس دن کو منانے کا آغاز ایک انڈین سائنسدان Sir Ronald Ross کی اس دریافت سے ہوا کہ مادہ مچھر کے کاٹنے سے ملیریا پھیلتا ہے سر روس نے ہی اس دن کو مچھروں کے عالمی دن منانے کی سفارش کی تھی پہلی مرتبہ یہ دن غالباََ 1930 کو منایا گیا ،ویسے تو انسان کا سب سے بڑا قاتل انسان ہی ہے اس کے بعد انسانوں کا سب سے بڑا قاتل تلاش کریں تو مچھر ہے۔یہ انسان کا ایسا دشمن ہے جس کے خلاف انسان مسلسل شکست کھا رہا ہے ۔سالانہ اس سے متاثرہ افراد کی تعداد کروڑوں تک جا پہنچتی ہے۔مچھروں سے پھیلنے والی بیماریوں سے ہر سال کروڑوں انسان لقمہ اجل بن جاتے ہیں ۔ہم انسانوں کے سب سے بڑے دشمن مچھر کے بارے میں معلومات ہونی چاہیے۔
سب مچھر نقصان دہ نہیں ہوتے ان کے کچھ فائدے بھی ہوتے ہوں شائد یا وہ نقصان دہ نہیں ہوتے جیسے کہ نر مچھر لیکن اکثر مچھر خاص کر مادہ مچھر تو خون چوستی ہے ،بیماریاں پھیلاتی ہے ۔کچھ مچھر دشمن سائنس دان مچھر کو زمین کا سب سے خطرناک جانور قرار دیتے ہیں ۔ایک بہت بڑے سائنس دان کی تحقیق ہے کہ مچھروں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ،ہندو ،عیسائی ،یہودی ،سکھ ،بدھ مت ،ملحد ،مسلمان سب اس کے دشمن ہیں اسی طرح امیر،غریب، ادنیٰ ، اعلیٰ ،بچے ، بوڑھے ،عورت،مرد ، کسی کو نہیں بخشتا اوریہ ایک اتفاق ہے وہ بہت بڑا سائنس دان راقم ہی ہے ۔ اس انسان دشمن ننھے پتنگے کواردو میں مچھر انگریزی میں مسکیٹو کہتے ہیں سوشل میڈیا پر ایک روایت خاصی مشہور ہے کہ مسجد کے لیے انگریزی لفظ mosque دراصل mosquito سے نکلا ہے ۔ ہسپانوی زبان میں مسجد کو mezquita کہا جاتا تھا اور انگریزی لفظ mosque اسی زبان سے اخذ کیا گیا ہے۔
مچھر کی دنیا بھر میں ان کی 3500 اقسام پائی جاتی ہیں۔یا یہ کہ لو کہ انسان سے اب تک اتنی ہی دریافت ہوئی ہیں ۔مچھر کی زندگی چار مراحل پر مشتمل ہوتی ہے ۔ “انڈہ” “لاروا” “پیوپا” اور مکمل مچھر۔ ان کی افزائش عموما جوہڑوں ، تالابوں ، نالیوں ، پر ہوتی ہے ۔ ان کی زندگی کے پہلے تین مرحلے دو ہفتوں میں اس کے بعد سائنس دان کہتے ہیں ایک ماہ تک زندہ رہے ہیں ۔نر مچھر کی خوراک پھولوں کا رس ،اور مادہ مچھر کی خوراک خون ہے ۔اس کو خون کی ضرورت اس لیے ہوتی ہے کہ اس نے انڈے دینے ہوتے ہیں اور انڈوں کے لیے فولاد ،پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ خون سے حاصل ہوتی ہے ۔مچھروں کی افزائش زیادہ تردر میانہ موسم میں ہوتی ہے نہ زیادہ گرم نہ زیادہ سرد درمیانہ موسم میں ، شدید موسم سرما،اور سخت موسم گرما میں کسی حد تک غیر فعال ہو جاتے ہیں۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو باربار اس طرف متوجہ کیا ہے کہ اس کی ” نشانیاں” تلاش کریں ۔ ان میں سے ایک مچھربھی اللہ تعالی کی نشانی ہے ۔ سورالبقرہ کی آیت نمبر 26 میں مچھر کا ذکر یوں آیا ہے ۔ہاں، اللہ اس سے ہرگز نہیں شرماتا کہ مچھر یا اس سے بھی حقیر تر کسی چیز کی تمثیلیں دے جو لوگ حق بات کو قبول کرنے والے ہیں، وہ انہی تمثیلوں کو دیکھ کر جان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے جو ان کے رب ہی کی طرف سے آیا ہے ، اور جو ماننے والے نہیں ہیں، وہ انہیں سن کر کہنے لگتے ہیں کہ ایسی تمثیلوں سے اللہ کو کیا سروکار؟ اس طرح اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہتوں کو راہ راست دکھا دیتا ہے اور گمراہی میں وہ انہی کو مبتلا کرتا ہے ، جو فاسق ہیں۔
مچھر کی “خون چوسنے ” کا عمل تیز تر اور پیچیدہ ہوتا ہے مثلامچھر اپنے شکار پر اترنے کے فوراََ بعد اپنے ہونٹوں کی مدد سے جگہ تلاش کرتا ہے۔ مچھر کا سرنج کی شکل کا ڈنک جس پر حفاظت کے لئے قدرت نے ایک خاص غلاف چڑھا دیا ہے ، خون چوسنے کے عمل کے دوران پیچھے کو ہٹتا ہے ۔اوراصل کام مچھر کا اوپر والا جبڑا کرتا ہے جو چاقو کی طرح تیز ہوتا ہے۔جوآرے کی مانند کھال کاٹ لیتا ہے ۔ جب مچھر کا ڈنک کٹی ہوئی کھال کے ذریعے اندر داخل ہوتا ہے تو یہ خونی وریدوں یا رگوں تک پہنچ جاتا ہے ۔ اب یہ مچھر خون چوستا ہے ۔ مچھر کا مشغلہ انسانوں کو ستانا ہے ،اس سے وہ بہت خوش ہوتا ہے اس کے ہنسنے کی آواز تو سب نے سنی ہوتی ہے ۔اس بات سے مجھے بولی وڈ اداکار نانا پاٹیکر کی ایک فلم یاد آئی جس میں اس نے مچھر کی شان میں ایک مکمل غزل لکھی ہے جس میں مچھر کو(سسرالی رشتہ دار) سالا کہا ہے کہ سالا ایک مچھر آدمی کو ہیجڑا بنا دیتا ہے۔
نمرود نے پوری دنیا پر چار سو سال حکومت کی اس نے تکبر ،ظلم سے مخلوق خدا کو بہت ایذا پہنچائی وہ سمجھا کہ اس دنیا میں ہمیشہ رہے گا ۔ اپنی طاقت اور اقتدار کی وجہ سے مردود خدائی کا دعویٰ کرنے لگا۔جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کی دعوت دی تواس نے خالق کا انکار کر دیا۔یعنی خود کو ملحد کہنے لگا۔کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نمرود کوکئی بار دعوت دی ،اس سے مناظرے کیے ،جن میں نمرود کو شکست ہوئی اس پر وہ ضد میں آیا اور حضرت ابراھیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکا اس آگ کو اللہ تعالی نے گلزار بنا دیا ۔جب حجت مکمل ہو گئی تواس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا مانگی کہ اے مالک! یہ ملعون نافرمان تیرے ساتھ مقابلہ کرنا چاہتا ہے اسکو ہلاک کر ۔ تیری مخلوق میں مچھر ادنیٰ اور ضعیف ہے اور کئی جانوروں کی خوراک بنتا ہے میں تیری رحمت سے اس مچھر کو مانگتا ہوں کہ وہ اس مردود کا خاتمہ کرے پس انکی دعا قبول ہوئی ۔اس وقت نمرود اللہ سبحان تعالی کے خلاف جنگ کرنے کے لیے فوج اکھٹی کر چکا تھا اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ اگر تیرا خدا چاہے تو زمین کی حکومت ہم سے چھین لے مگر اس سے پہلے میری فوج کا مقابلہ کرے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس سے کہ کہ مردود دیکھ میرے خدا کی فوج آ گئی ہے نمرود نے دیکھا کہ مانند ابرِ سیاہ ہوا پر کچھ چلا آتا ہے۔ یہ دیکھ کر لشکر میں ہلچل مچ گئی مچھروں کا شور پھیل گیا اور اس مردود کا سارا جوش و خروش جاتا رہا۔یوں اللہ پاک نے اس لشکر پر مچھر مسلط کر دئیے انہوں نے انکا گوشت اسطرح کھا لیا کہ صرف ہڈیاں باقی رہ گئیں، ایک مچھر اس پلید نمرود کی ناک میں گھس گیا اور دماغ میں جا کر اسکا مغز کھانے لگا۔ مردود اس عذاب میں گرفتار ہوا کہ جسکا چارہ کچھ نہ ہو سکا وہ ہر کسی سے سر پر لکڑی یا ہتھوڑا مرواتا جس سے مچھر کچھ پل دم لیتا اور اسکو چین آتا، شب و روز اسکے سر پر سونٹے کھاتے ہوئے گزرنے لگے حتیٰ کہ اللہ پاک کے حکم سے وہ مردود ہلاک ہوا۔
مچھروں کو خود سے دور رکھنے کے لئے کچھ گھریلو ترکیبیں درج ذیل ہیں ،نیم کے تیل میں یکساں مقدار میں ناریل کا تیل ملالیں اور سونے سے پہلے اسے جسم پر مل لیں۔ مچھر تقریباً آٹھ گھنٹے تک آپ کے پاس نہیں بھٹکیں گے ۔کمرہ بند کر کے تقریباً بیس منٹ تک کافور کی دھونی دیں یا ایسی موم بتیاں استعمال کرلیں جن میں کافور ملا ہوا ہو ،لہسن کو پانی میں ابال لیں اور پھر اس پانی کو کمرے میں چھڑک دیں۔ مچھر اس کمرے سے دو گز دور رہیں گے ۔ہمارے ہاں مچھروں کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں یہ کہ جس کا خون میٹھا ہو اس پر حملہ کرتے ہیں یا انسانی خون کی بو پا کر حملہ کرتے ہیں اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔اصل میں مچھر انسانی منہ سے نکلنے والی بد بو (مہک )سے انسان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔اس لیے مچھروں کے حملے سے پچنے کے لیے منہ کو صاف رکھیں ۔جواپنے منہ کی صفائی کا خیال نہیں رکھتے وہ مچھروں کا زیادہ شکار بنتے ہیں۔اب تک مچھروں سے حفاظت کے لیے بہت سی ادویات بنائی جا چکی ہیں۔
سائنسدان یہ بھی کہتے ہیں کہ مچھر سے پھیلانے والی بیماریوں سے بچنے کے لیے ان کی نسل کو بڑھنے سے روکنا ہے ۔اور یہ کہ جہاں مچھر زیادہ ہوں ۔وہاں مچھر سے زیادہ سے زیادہ خود کو بچائیں مثلا سر ،منہ،جسم،ڈھانپ کر رکھیں ۔ماہرین کا کہنا ہے مچھر وں کی افزائش روکنے کا سب سے بہترین حل کسی بھی مقام پر پانی نہ کھڑے ہونے دینا ہے ۔ہمارے ملک کے خادم اعلی گزشتہ کئی ایک برس سے مچھروں کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں ۔اب تک ان کواس میں کوئی کامیابی تو نہیں ہوئی اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں پانی کی ترسیل کا کوئی خاص نظام نہیں ہے ۔اس لیے یک طرفہ جنگ جاری ہے۔
تحریر : اختر سردار چودھری، کسووال