تحریر: ریاض احمد ملک بوچھال کلاں
گذشتہ دنوں ایک چونکا دینے والی خبر دیکھنے کو ملی جسے تمام چینلوں نے بھر پور کوریج دی خبر کچھ اس طرح تھی کہ ملک کی معروف اداکارہ بابرہ شریف نے چڑیا گھر میں پیدا ہونے والے شیر بچے کو گود لے لیا اور چڑیا گھر کے مالکان کو دو لاکھ روپے کا چیک بھی دیا جو اس شیر کے بچے کی ایک سال کی کفالت کا خرچہ تھا یہ خبر سن کر میں حیران تو بہت ہوا اور سوچتا رہا کہ ملک میں غربت ختم ہو گئی ہے ؟ تعلم ہر کسی کو میسر ہے علاج معالجہ کی سہولہت ہر کسی کو مل رہی ہے اگر ہیہ سوال کو بابرہ جی سے پوچھ لیتا کہ جانوروں کے بچوں کی ضرورت سے زیادہ اگر وہ کسی انسان کے لئے یہی دو لاکھ خرچ کر دیتیں تو یہ صدقہ جاریہ میں شامل ہو جاتا کیونکہ ہمارے ملک میں انسانوں کی ضروریات زیادہ ہمارے بچے گندگی کے ڈھیروں سے اپنا رزق تلاش کرتے نظر آئیں گے۔
اس ملک میں کتنی لڑکیاں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے والدین کے گھر کی ہو جاتی ہیں کتنے افراد علاج کی سہولت نہ ہو نے کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں مگر شائد بابرہ شریف بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھ کر غریبوں کے لئے خون کے آنسو بہاتے ہیں کیونکہ انہوں نے غربت کا نام سنا ہوتا ہے غربت کو دیکھا نہیں ہوتا یہ لوگ اپنے منہ میں سونے کا کڑچھہ لے کر پیدا ہوتے ہیں میں یہا ایک مثال دیتا ہوں کسی ملک میں کال پڑھ گیا توگ بھوک سے مرنے لگے بلآخر بادشاہ سلامتکو وزیر نے اطلاع دی کہ ملک میں روٹی نہیں مل رہی لوگ پریشان ہیں اور بھوک سے مر رہے ہیں بادشاہ سلامت بڑے غمگین ہوئے اور سوچنے لگے کہ ہماری قوم بیوقوف ہے اس نے وزیر سے کہا کہ لوگ پریشان کیوں ہیں روٹی نہیں ملتی تو وہ بسکٹ کیوں نہیں کھا لیتے اب بادشاہ سلامت کو کیا خبر تھی کہ بسکٹ بھی تو آٹے سے بنتے ہیں یہی۔
حال ہمارے لیڈروں کا بھی ہے ہمارے لیڈران لیڈران کا لفظ میں طنزیہ طور پر لکھ رہا ہوں میں امریکہ کے صدر کا انٹرویو جو 1992میں لیا گیا تھا پوچھا گیا کہ لیڈر اور حکمران میں کیا فرق ہوتا ہے تو انہوں نے کہا حکمران صرف حکومت کرتا ہے اور لیڈر نسلوں کی بہتری کے بارے میں سوچتا ہے مگر یہاں تو ہر کوئی غریبوں کی فکر میں جل کر اس آس میں بیٹھا ہے کہ کب اسے حکومت ملتی ہے ہم ہیلی کاپٹر پر کاٹن لگے کپڑوں میں ان لوگوں کے ساتھ عید منا رہے ہوتے ہیں جن کے تن پر کپڑے نہیں ہوتے مگر ہمیں یہ توفیق نہیں ہوتی کہ ہم ان بچوں کو کچھ دے جائیں جن سے وہ بچے کم از کم کپڑے یا کھلونے ہی خرید لیتے کچھ عرصہ قبل کی ایک بات مجھے یاد آ گئی جب طارق عزیز نامی وزیر اعظم پاکستان کو کلر کہار دیکھنے کا شوق ہوا اس کے اس دورہ پر سیکورٹی میں مد میں کتنے خرچ ہوئے اس کا ذکر تو فضول ہے۔
جب ان کا سرکاری دورہ شروع ہوا اور ان سے اس دورہ کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے کلر کہار کے یوٹیلٹی سٹور کو چیک کرنے کا بہانہ کیا اور کہا کہ یوٹیلیٹی سٹور ہی غریبوں کے لئے واحد سہارا ہیں اس موقع پر سیکورٹی اس قدر زیادہ تھی کہ غریب گھروں میں مقید ہو گئے اور انتظامیہ نے چند افراد جن میں میں بھی شامل تھا اس سٹور پر خریداری کے لئے بھیجا اس ڈرامے میں وزیر اعظم پاکستان نے خریداری کرنے والوں کا خرچہ بھی خود دیا یعنی حکومتی خزانے سے اور پھر وہ خرچہ ہم سے کیسے واپس لیا کیرے خیال میں اس کا تذکرہ بھی فضول ہی ہو گا کیونکہ لوگ سمجھ دار ہیں خود ہی سمجھ جائیں گے میں ایک لیڈر کا ذکر ضرور کروں گا جن کو غریبوں سے بے حد پیار ہے انہیں ایک صوبے کی حکمرانی بھی نصیب ہوئی ہے مگر وہ تو اس صوبے کے بجائے پاکستانی عوام کے درد میں مرے جا رہے ہیں اور ہر روز ان پر حکومت کا خواب دیکھ کر سوتے جاگتے ہیں۔
اس صوبے کے لوگ تو ان کی گڈ گورنس سے تنگ ہیں انہوں نے جو دعوے کئے تھے ان پر عمل تو وہ اپنی حکومت میں ہی نہ کر پائے وہاں اگر طوفان آ جائے تو وہ اسلام آباد میں گانے سن رہے ہوتے ہیں کیونکہ ان کی منزل عوام تو نہیں اسلام آباد ہی تو ہے اور جب وہ جل کر عوام تک پہنچ پاتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ طوفان وہ تو نہیں لے کر آئے اور اگر دو چار بندے مر بھی گئے تو کیا طوفان آ گیا اب بتائیں کہ ان کے دل میں غریبوں کا کتنا درد ہے ان بھی عوام ان کی حمایت کریں تو پھر اس قوم کا اللہ ہی حافظ ہو سکتا ہے
ان لوگوں کے لئے انسانوں سے زیادہ جانوروں کی اہمیت ہے انہیں غریب کا تو پتہ ہے غربت کا پتہ نہیں اگر یہ لوگ جب بڑی بڑی گاڑیوں میں تمارے پاس آئیں تو مہربانی کر کے انہین غربت ضرور دیکھائیں میرا مقصد یہاں کسی کی دل آزاری ہر گز نہٰں مگر حقیقت کو بھی دیکھا جائے سابقہ ادوار میں ہمارے ساتھ کیا ہوا پیٹرول ہمیں کتنے کا ملا کھانے پینے کی اشیاء کیسے میسر آئیں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا کیا حال تھا اور اب،،،،،،،؟۔
اب موازنہ کریں ملک میں امن و امان کی کیا صورتحال تھی موجودہ حکومت افواج پاکستان اور ملک کی تمام ایجنسیز نے فیصلہ کیا کہ ملک سے دہشت گردی کو ختم کر کے دم لیں گے ملک ایک بار ترقی کی راہوں پر چل نکلا ہے عوام بھی خوشحال ہونا شروع ہو گئے ہیں رفتہ رفتہ لوڈ شیڈنگ بھی انجام کو پہنچ رہی ہے کوئی منصوبہ سستا ہوتا اب مہنگا ہو رہا ہے چلو ہو تو رہا ہے عوام کی بھلائی کے لئے کوئی کام ہو تو رہا ہے
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تھوڑی کم ہو رہی ہیں ہو تو رہی ہیں سابقہ دور میں بھی ان کی قیمتیں عالمی منڈی میں کم ہوتی تھیں مگر پاکستان میں ان کی قیمتوں کو کم کرنے کے بجائے بڑھایا جاتا رہا اس وقت یہ لوگ خوب خرگوش کے مزے لے رہے تھے اور اب جب اس کنی کا رجحان پیدا ہوا تو ان کے دل مین غریبوں کا درد جاگ اٹھا اور مخیلف اخبارات اور چینلوں پر خوب بیان بازیاں ہو رہی ہیں مگر عوام شائد سمجھتے نہین یا ان کو بیوقوف بنا رہے ہوتے ہیں۔
تحریر: ریاض احمد ملک بوچھال کلاں
malikriaz57@gmail.com
03348732994