وقت کی رفتا ر تیز تر‘ عالمی غلبے کا ہنڈولا گردش میں‘سپر پاورز کے تیور بدلتے ہوئے‘طاقت‘ سیاست ‘ نظریات‘ سب تغیر پذیر۔ بہت سے ممالک اپنی تزویراتی تدابیر پر نظر ثانی پر مجبور۔ امریکہ میں انتخابات سے پہلے آخری سال ‘ اور امید یہ کہ ووٹروں سے کیے گئے اہم وعدے پورے ہوجائیں گے۔
برطانیہ بریگزٹ ڈیل کی الجھن میں جبکہ تھریسا مے اپنی حکومت بچانے کی جدوجہد کرتے ہوئے ۔ پیلی جیکٹ تحریک کے کارکنوں کے احتجاجی مظاہروں نے فرانس کا ناک میں دم کیا ہوا ہے ۔ ادھرپڑوس میں بھارت ‘ پاکستان کے ساتھ سرحد پار چھیڑخانی پر تلا ہوا ہے ۔ یہ سیاسی جغرافیائی انتشار کیا کم تھا؟ اس پہ مستزادہر رنگ اور قسم کے دعووں اور نعروں سے فضا بوجھل۔ نتائج دیکھیں تو صفر۔بڑی طاقتیں منقسم ہیں۔ یورپی یونین کو بحران کا سامنا ہے ۔ روایتی طو ر جرمنی مالی سرپرست بن کر ہاتھ تھامتا رہا ہے ۔ اینجلا مرکل مالی بحران کے شکار یورپی ممالک کی مدد کررہی ہیں۔ برطانیہ ایک نئی سیاسی سمت کی طرف رہنمائی کررہا ہے۔ ٹرانس اٹلانٹک فیصلوں پر یورپی یونین اور امریکی اتحادیوں کے لیے فرانس راستہ ہموار کررہا ہے۔ اتحاد سازی کے لیے بھی اور اختلافات بڑھانے کے لیے بھی۔ یہ تینوں اپنی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ برقرار رکھنے کی کوشش میں ہیں۔ مرکل نے چوتھی مرتبہ الیکشن جیت تو لیا لیکن ان کی سیاسی پوزیشن قدرے کمزور ہوچکی ہے ۔وہ پالیسی سازی کے لیے اپنے سیاسی بازوتوانا کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ فرانسیسی صدر میکروں کی معاشی اصلاحات نے ملک میں بے چینی پیدا کردی ہے۔ یہ ہاتھی کے پائوں میں کیل کی طرح ہے جبکہ برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے ہنوز درپیش مسئلے کو حل کرنا ہے۔ عالمی اندازِ قیادت زیر غور ہے ۔صدر ٹرمپ نے حسب ِمعمول کچھ ہنگامی اقدامات اٹھائے ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کے بارے میں ان کے دل میں گھر کرنے والی تبدیلی اتنی ہی بے قرار ہے جتنی ان کی جارحیت کی مچلتی خواہش۔ یہ محسوس کرتے ہوئے کہ ان کی آئینی مدت تمام ہوا چاہتی ہے‘ انہوںنے ”آئیے افغانستان سے باہر نکلیں‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے اپنے سفارت کاروں کوجنوبی ایشیا اور مشرق ِوسطیٰ میں ہر طرف روانہ کردیا ۔ جائیں‘ طالبان کے ساتھ امن کا معاہدہ کرکے آئیں۔ ٹرمپ کی قیادت شروع سے ہی متنازع رہی ہے ۔ انہوں نے سفید فام امریکیوں کے دیگر اقوام اور تارکین ِوطن کے خلاف اشتعال کو انتخابی مہم میں ڈھالا اور کامیابی حاصل کی ۔ان کی رائے میں اگلے انتخابات میں ان کی کامیابی یقینی ہے ۔ وجہ یہ بتاتے ہیں کہ وہ سکورکارڈپڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہی خوبی ان کی انتخابی جیت کے لیے کافی ہوگی ۔ایشیا میں چین اور انڈیا میں مختلف انداز کی قیادت ہے ۔ صدر شی جن پنگ نے ایک منفرد انداز اپناتے ہوئے نچلی سطح تک فیصلہ سازی کااختیار منتقل کرنے پر رضا مندی ظاہرکی ہے ۔ پالیسی ساز کمیٹی کا اختیار کم کرنے کے لیے مختلف شعبوں میں فیصلہ سازی کے لیے کئی ایک گروپس قائم کیے ہیں۔ عالمی سطح پر چین کی ساکھ بطور ایک عظیم معاشی اور تجارتی طاقت قائم کردی ہے ۔ اب چین خطے کے ساتھ بھی اپنی ترقی کو شیئر کرنے کے لیے تیار ہے‘ اور ان ممالک کے لیے بھی جو اس سفر میں ساتھ چلنا چاہتے ہیں۔ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا پھیلائو دنیا کے 150 سے زائدممالک تک پہنچ چکا ۔ اب اسے نیا یورایشیا سنگم قرار دیا جارہا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری ( سی پیک) میں دیگر ممالک کو شریک ہونے کی دعوت دینے سے پتہ چلتا ہے کہ موجودہ چینی قیادت اپنے پیش روئوں کی نسبت نرم اور لچک دار پالیسی رکھتی ہے۔ بھارت میں انتخابی طبل بجنے سے مودی کی قیادت کڑی آزمائش میں آگئی ہے۔ مودی نے کبھی بھی اپنے دائیں بازو کے قوم پرستانہ نظریات کو چھپانے کی کوشش نہیں کی ۔ انہی نظریات کے بل پر وہ گزشتہ انتخابات جیت گئے تھے ‘ لیکن اس کامیابی نے بھارتی قیادت کے بارے میں شکوک و شبہات گہرے کردیے۔ بطور ایک معاشی قوت‘ انڈیا کو عالمی حمایت ضرورحاصل رہی لیکن مودی کی قیادت میں انڈیا کی جمہوری ساکھ کو نقصان پہنچا ہے ۔ مودی اسے عالمی قوت بنانے کا خواب دیکھ رہے تھے ۔ ان کی پاکستان کو فوجی طور پر دبانے کی کوشش بری طرح ناکام ہوئی ۔ بالا کوٹ کے غبارے سے ہوا نکل گئی‘ عالمی میڈیا نے بھارتی قیادت کو آئینہ دکھادیا۔ اس سے پہلے بی جے پی کا خیال تھا کہ یہ ”کامیابی ‘‘ ووٹروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے کافی ہوگی۔ لیکن اب تک مودی کو کافی چوٹیں لگ گئی ہیں۔ اپنے زخم سہلانے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑے گا۔جس دوران دنیا میں ابہام کی دھند گہری ہورہی تھی ‘کوئی نہیں جانتا تھا کہ قیادت کہتی کیا‘ کرتی کیا ہے‘ نیوزی لینڈ کی سرزمین خون سے سرخ ہوگئی۔ یقینا یہ ایک بہت بڑا سانحہ تھا۔ اس نے دکھادیا کہ دنیا کے درمیان ایک لکیر کھنچ چکی ہے ۔ دنیا حیران تھی کہ کیا انسانی محبت محض ایک کہانی ہے ‘ اصل حقیقت صرف نفرت ہے ایک دنیا جس میں طاقت کا قانون چلتا ہے ۔
ایک دنیا جہاں قیادت ہمہ وقت اپنے لوگوں کو احساس دلانے میں مصروف رہتی ہے کہ صرف ان کا عقیدہ‘ رنگ اور نسل ہی برتر ہیں۔ یہی تھا وہ ابہام‘ یہ تھی وہ کنفیوژن‘ یہ تھی وہ گہری ہوتی ہوئی دھند جب نیوزی لینڈ کی سرزمین سے امیدکا سورج طلوع ہوا۔ دنیا کے اس چھوٹے سے ملک کا عالمی قد کاٹھ بڑھنے لگا۔ بحرالکاہل کی بے پایاں وسعتوں میں دریافت ہونے والے اس آخری ملک کی آبادی پانچ ملین ہے ۔ یہ کھیل کود کے سوا شاید ہی کبھی عالمی خبروں کا موضوع بنا ہو ۔ تاہم پندرہ مارچ کے بعد سوشل میڈیا پر نیوزی لینڈ ٹاپ ٹرینڈ رہا ہے ۔ اس روزنماز ِ جمعہ ادا کرنے والے پچاس مسلمانوں کو خون میں نہلا دیا گیا۔ فائرنگ اور دھماکے ‘ اور پھر عالمی سطح پر روایتی مذمت۔ کوئی بھی تو نئی بات نہیں تھی۔ لیکن پھر اچانک کیا ہوا۔ عالمی ضمیر کے منہ پر جیسے سرد پانی کا ایک چھینٹا پڑا ۔ نیوزی لینڈ کی دبلی پتلی خاتون رہنما جسینڈا آرڈرن سر پہ دوپٹہ لے کر سوگواروں کے درمیان کھڑی دکھائی دیں۔ انہیں دلاسہ دیا‘ تسلی دی‘ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انسانیت کی ڈوبی نبضیں بحال ہونے لگیں۔ جنگ و بدل کے اس دور میں ایشیا میںایک ملک‘ جس کے بارے میں پر تشدد ہونے کا تاثر موجود تھا‘ نے ایسے رہنما (عمران خان) کو چن لیا جو ایشیا میں طویل عرصے سے جاری دنیا کی خطرناک ترین کشمکش ختم کرنے کا عزم لیے ہوئے تھا ۔ پاکستان کو داخلی طور پر دہشت گردی کا سامنا رہا ہے۔
دوسری طرف مودی نے پلوامہ حملے کا بہانہ بناکر پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی جسارت کی ۔ اس کے جواب میں پاکستان نے ان کے طیارے کو مارگرایا‘ اور پائلٹ کو گرفتار کرلیا۔وزیر ِاعظم عمران خان نے پائلٹ کو رہا کردیا۔ اس حوالے سے آسان ترین بات یہ تھی کہ اس سے سبق سیکھا جائے ۔ عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے کافی سوجھ بوجھ اور پختہ کاری کا مظاہرہ کیا‘ جبکہ مودی کی ناپختہ کاری کھل کر سامنے آگئی ۔ ایک ملک جس پر دہشت گردی کا لیبل لگاہوا تھا‘ کے پرامن انداز کی وجہ سے عالمی میڈیا نے وزیر ِاعظم پاکستان کو ایک باوقار اور مدبر رہنما کے طور پر دیکھا۔ نیوزی لینڈ اور پاکستان یکساں مماثلت رکھنے والے ممالک نہیں ‘ لیکن حالیہ بحران کے مواقع پر ان دونوں کی طرف سے عالمی سطح کی قیادت سامنے آئی ۔ قیادت کی اس خوبی کی بنیاد عالمی اصولوں اور اقدار پر تھی ۔ جس دوران بہت سے نام نہاد سرکردہ رہنما عدم برداشت اور توہین کو فروغ دے رہے تھے‘ جسینڈا نے دیگر مذاہب کے احترام اور انسانیت سے ہمدردی کی بات کی ۔ عمران خان نے بھی جنگ اور تنائو کے عالم میں امن اور مذاکرات کی پیش کش کی ۔ نیوزی لینڈ کی وزیر ِاعظم نے مسلمان کمیونٹی کے ردعمل کو روک لیا‘ اور اسی طرح عمران خان نے دنیا کے خطرناک ترین بارڈر پر جنگ کو۔ وہ بارڈر جہاں جنگ ایٹمی تصادم کی طرف جاسکتی ہے۔ کسی نے کیا خوب لکھا ہے” مودی اور ٹرمپ سے لبریز دنیا میں‘ جیسنڈ ااور عمران بنیں‘‘۔