معاشرتی و اجتماعی زندگی کے تقریباً تمام ہی شعبوں میں باہمی رنجش اور رقابت کا کھیل جاری رہتا ہے، کبھی کسی نے کوئیعیب اُچھال دیا، کوئی جملہ کَس دیا، یا لوگوں کے سامنے ذلیل کردیا اور مجمع نے ایک زوردار قہقہہ لگا دیا تو اِس سے فطری طور پر انسان کے دل و دماغ پر اُداسی چھا جاتی ہے، طبیعت تلملا اُٹھتی ہے، اور روح تڑپ کر رہ جاتی ہے۔
اِنسان کو اﷲ تعالیٰ نے انتہائی محترم اور قابل عزت بنایا ہے، اِس لیے اسلام اِس قسم کی تمام گھٹیا و رذیل حرکات و خرافات کی مکمل طور پر نفی کرتا ہے کہ جس میں قابل احترام انسانیت کی تذلیل و توہین کو اپنی طبعی تفریح اور روحانی تسکین کا ذریعہ بنایا جائے۔
ہاں! کوئی ایسی صورت ہو کہ جس میں کسی انسان کی توہین و تنقیص اور ہتک و تذلیل کا پہلو مفقود ہو، اور اُس سے اُس کے نقائص و عیوب کا اُچھالنا مقصود نہ ہو تو اخلاقی اور شرعی دائرے کے اندر رہتے ہوئے اپنے بیوی بچوں، عزیز و اقارب اور بے تکلف دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ باہمی ہنسی مذاق اور دل لگی کرنے کی نہ صرف یہ کہ اسلام اجازت دیتا ہے، بل کہ اِس کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔
حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریمؐ حضرت طلحہؓ کے ہاں تشریف لے گئے، تو اُن کے ایک بیٹے کو بڑا غمگین دیکھا، جس کی کنیت ’’ابوعمیر‘‘ تھی۔ حضور اکرمؐ کا معمول یہ تھا کہ آپؐ جب ابوعمیر کو دیکھا کرتے تو اُس سے مزاح فرمایا کرتے۔ چناں چہ آپؐ نے فرمایا: ’’ کیا بات ہے ابوعمیر ! غمگین نظر آرہے ہو؟‘‘ گھر والوں نے بتایا کہ: ’’ اِس کا نُغیر (لال چڑیا یا بلبل) پرندہ مرگیا ہے، جس سے یہ کھیلا کرتا تھا (اِس لیے غمگین نظر آرہا ہے)‘‘ اِس پر حضور اکرمؐ اُس سے (دل لگی کے لیے) فرمانے لگے: ’’اے ابوعمیر! تمہارے نُغیر پرندے کا کیا بنا ؟‘‘
حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرمؐ نے ایک دفعہ مجھے ازراہِ مزاح فرمایا: ’’او دو کان والے!‘‘
حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضور اکرمؐ کی خدمت میں آیا اور اُس نے آپؐ سے اپنے لیے سواری مانگی تو حضور اکرمؐ نے فرمایا : ’’ہم تمہیں اونٹنی کا بچہ دیں گے۔‘‘ اُس نے عرض کیا: ’’یارسول اﷲ ﷺ! میں اُونٹنی کے بچے کا کیا کروں گا؟ (مجھے تو سواری کے لیے جانور چاہیے وہ بچہ تو سواری کے کام نہیں آسکے گا) حضور اکرمؐ نے فرمایا: ’’ہر اونٹ اُونٹنی کا بچہ ہی تو ہوتا ہے۔‘‘ حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ دیہات کے رہنے والے ایک صحابی کا نام ’’زاہرؓ‘‘ تھا، وہ گاؤں سے آنحضرتؐ کے لیے (سبزی ترکاری وغیرہ) ہدیہ لایا کرتے، اور جب یہ واپس جانے لگتے تو حضور اکرمؐ اُنہیں شہر کی چیزیں دے دیا کرتے، اور فرماتے: ’’زاہر ہمارا ’’دیہات‘‘ ہے۔
اور ہم اُس کے ’’شہر‘‘ ہیں۔‘‘ حضورؐ کو اِن سے بڑی محبت تھی، لیکن تھے وہ واجبی شکل و صورت کے۔ ایک مرتبہ حضرت زاہرؓ اپنا سامان بیچ رہے تھے، حضور اکرمؐ نے پیچھے سے جاکر انہیں پکڑ لیا وہ حضور اکرمؐ کو نہ دیکھ سکے، یعنی اُن کی کمر اپنے سینے سے لگا کر اُن کی بغلوں کے نیچے سے دونوں ہاتھ لے جاکر اُن کی آنکھوں پر رکھ دیے۔ حضرت زاہرؓ نے کہا: ’’مجھے چھوڑ دو! یہ کون ہے؟‘‘ پھر پیچھے مڑکر دیکھا تو حضور اکرمؐ کو پہچان لیا، اور اپنی پیٹھ حضور اکرمؐ کے سینے سے اچھی طرح چمٹانے لگے، اور حضور اکرمؐ بہ طورِ مزاح فرمانے لگے: ’’اِس غلام کو کون خریدے گا ؟ ‘‘ حضرت زاہرؓ نے عرض کیا: ’’یارسول اﷲ ﷺ! اگر آپؐ مجھے بیچیں گے تو مجھے کھوٹا اور کم قیمت پائیں گے۔‘‘
حضورؐ نے فرمایا: ’’ لیکن تم اﷲ کے نزدیک کھوٹے اور کم قیمت نہیں ہو، بل کہ اﷲ کے ہاں تمہاری بڑی قیمت ہے۔‘‘حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضور اکرمؐ کے ساتھ سفر میں گئی، میں اس وقت نوعمر لڑکی تھی، میرے جسم پر گوشت بھی کم تھا اور میرا بدن بھاری نہیں تھا، حضور اکرمؐ نے لوگوں سے فرمایا : ’’ آپ لوگ آگے چلے جائیں۔‘‘ چناں چہ سب چلے گئے، تو مجھ سے فرمایا : ’’ آؤ! میں تم سے دوڑ میں مقابلہ کروں۔‘‘ چناں چہ ہم دونوں میں مقابلہ ہوا تو میں حضور اکرمؐ سے آگے نکل گئی اور حضور اکرمؐ خاموش رہے۔ پھر میرے جسم پر گوشت زیادہ ہوگیا اور میرا بدن بھاری ہوگیا اور میں پہلے قصے کو بھول گئی، تو پھر میں آپؐ کے ساتھ سفر میں گئی، آپؐ نے لوگوں سے فرمایا : ’’ آگے چلے جاؤ‘‘ لوگ چلے گئے، پھر مجھ سے فرمایا : ’’ آؤ! میں تم سے دوڑ میں مقابلہ کروں ‘‘ چناں چہ ہم دونوں میں مقابلہ ہوا تو حضور اکرمؐ مجھ سے آگے نکل گئے، حضور اکرمؐ ہنسنے لگے اور فرمایا: ’’ یہ پہلی دوڑ کے بدلے میں ہے۔ ‘‘ ( یعنی اب معاملہ برابر ہوگیا )
حضرت حسنؓ فرماتے ہیں کہ ایک بوڑھی عورت نے حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا : ’’یارسول اﷲ ﷺ! آپ دُعا فرمائیں کہ اﷲ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل کردے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ اے اُم فلاں! جنت میں کوئی بوڑھی عورت نہیں جائے گی۔‘‘ وہ عورت روتے ہوئے واپس جانے لگی، تو حضورؐ نے فرمایا: ’’ اسے بتادو کہ وہ جنت میں بڑھاپے کی حالت میں داخل نہیں ہوگی ( بل کہ جوان کنواری بن کر جنت میں جائے گی) کیوں کہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’مفہوم : ہم نے (وہاں کی) اِن عورتوں کو خاص طور پر بنایا ہے۔ یعنی ہم نے اِن کو ایسا بنایا ہے کہ وہ کنواریاں ہیں۔‘‘ حضرت عوف بن مالک اشجعیؓ فرماتے ہیں کہ میں غزوۂ تبوک میں حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپؐ چمڑے کے ایک چھوٹے خیمے میں تشریف فرما تھے۔ میں نے آپؐ کو سلام کیا، آپؐ نے سلام کا جواب دیا، اور فرمایا: ’’اندر آجاؤ!۔‘‘ میں نے عرض کیا: ’’کیا سارا ہی آجاؤں؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’سارے ہی آجاؤ!‘‘
حضرت بکر بن عبد اﷲؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرمؐ کے صحابہؓ مذاق میں ایک دوسرے پر خربوزے پھینکتے تھے، لیکن جب کام کا وقت ہوتا تو اُس وقت وہ مردِ میداں ہوتے۔ (یعنی اُس وقت مذاق نہیں کرتے تھے، جب کام نہیں ہوتا تو کبھی کبھار کرتے تھے)
علامہ اقبال ؒ نے انہیں مقدس ہستیوں کے بارے میں کہا تھا:
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
حاصل کلام یہ ہے کہ حدودِ شرعیہ کے اندر رہتے ہوئے کسی کی پھبتی اُڑائے بغیر، کسی کی تذلیل و تنقیص کیے بغیر، کسی کے عیوب و نقائص اُچھالے بغیر اپنے بیوی بچوں، رشتے داروں، عزیز و اقارب اور دوستوں کے ساتھ گاہے بہ گاہے ہنسی مذاق اور دل لگی کرنا نہ صرف یہ کہ اسلام میں جائز و مستحسن ہے بل کہ اسلام اِس کی تعریف بھی کرتا ہے اور اِس کی اجازت بھی دیتا ہے۔