میرا اس شہر میں چوتھی مرتبہ آنا ہوا جسے علامہ اقبالؒ نے ’’خوبصورت خواب‘‘ کہا تھا، یعنی ہائیڈل برگ۔ یہاں کی فضا میں عجیب سی روحانی کیفیت محسوس ہوتی ہے، شاید اس لیے کہ یہاں علامہ نے کچھ عرصہ قیام کیا تھا۔ چوتھی مرتبہ اس شہر میں آنے کے باوجود وہی متلاشی آنکھیں جو شاید اقبال کی رہ گزر کی تلاش میں ہوں۔
شہر کا موسم بہت خوشگوار تھا اور اسے سویڈن کا موسم گرما کہا جاسکتا ہے۔ اس لیے میرے سویڈش اور نارویجین ساتھی بہت خوش تھے۔ دریائے نیکر کے کنارے پُرفضا مقام پر ہوٹل میں قیام پُرلطف احساس تھا۔ اسی دریا کے بارے میں علامہ نے بہت خوبصورت نظم لکھی جسے جرمن زبان میں ترجمہ کرکے دریا کے کنارے ایک یادگار کی صورت لگادیا گیا ہے۔ اقبال کے شیدائی ہر سال یہاں کے سبزہ زار پر محفل مشاعرہ اور ذکر اقبال کرتے ہیں۔ علامہ کے نام سے منسوب اقبال روڈ بھی دریا کے اسی سمت واقع ہے۔ علامہ اقبال کا جس گھر میں قیام رہا، وہ اقبال کے چاہنے والوں کا منتظر ہوتا ہے۔ بیرونی دیوار پر سنگ مرمر کی تختی آویزاں ہے جس پر کندہ ہے ’’محمد اقبال، 1938 تا 1877 پاکستان کے قومی شاعر اور فلسفی یہاں 1907 میں قیام پذیر رہے۔‘‘
اس تاریخی گھر کی تصاویر بنانے کے بعد وہاں کھڑا ہو کر اس دور کے بارے میں سوچنے لگا کہ جب مواصلات کے ذرائع دور حاضر جیسے ترقی یافتہ نہیں تھے، کیسے ایک نوجوان سیالکوٹ سے لندن اور پھر وہاں سے ہائیڈل برگ پہنچا اور یہاں رہ کر جرمن زبان سیکھی۔ ابھی انہی خیالات میں مگن تھا کہ اچانک اس گھر کا دروازہ کھلا اور ایک نوجوان باہر نکلا تاکہ ساتھ ملحق گیراج سے اپنی گاڑی نکال سکے۔ میں فوراً اس کی جانب لپکا اور گھر کو اندر سے دیکھنے کی اجازت چاہی۔ وہ نوجوان شاید اس صورت حال سے پہلے بھی دوچار ہوچکا تھا اس لیے بڑے تحمل سے بولا کہ اندر دیکھنے کےلیے کچھ بھی نہیں۔ ’’اس گھر کے مالک نے اندر فلیٹ بنا کر کرایہ داروں کو دے رکھے ہیں اس لیے اندر جانا بے سود ہے۔‘‘ اس نے مزید کہا کہ بہت سے لوگ آپ کی طرح اندر سے گھر دیکھنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں لیکن ہم انہیں یہی جواب دیتے ہیں کہ جو کچھ دیکھنا ہے وہ صرف بیرونی منظر ہی ہے اور وہ بھی سنگ مرمر کی ایک تختی جو جرمنی کی وزارت ثقافت نے 1966 میں مکان کی دیوار میں نصب کی ہے۔
کیا حکومت پاکستان اس گھر کو خرید کر ایک تاریخی ورثہ کے طور پر محفوظ نہیں رکھ سکتی؟ اس سوال کا ذہن میں آنا لازمی امر تھا۔ اگر یہ گھر ایک باقاعدہ میوزیم کی صورت اختیار کرلے تو یہاں آنے والے سیاحوں کو علامہ اقبال کی شخصیت اور ان کے کام سے بہتر آگاہی ہوگی۔ حکومت پاکستان اگر چاہے تو یہ کرسکتی ہے لیکن حکومت آخر ایسا کیونکر چاہے گی۔ حکومت پاکستان تو پہلے سے موجود مقامات کے حوالے سے غفلت اور لاپرواہی کا شکار ہے۔
اس سے زیادہ بے حسی اور کیا ہوگی کہ ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں اقبال چیئر 4 سال سے خالی ہے اور حکومت پاکستان نے اس کےلیے کوئی تعیناتی نہیں کی۔ ہائیڈل برگ یونیورسٹی جرمنی کی قدیم ترین جامعہ ہے جو 1386 میں قائم ہوئی۔ یونیورسٹی کے ساؤتھ ایشین انسٹیٹیوٹ میں اقبال چیئر قائم کی گئی لیکن اب یہ چیئر 2014 میں پروفیسر سید وقار علی شاہ کے چلے جانے کے بعد سے خالی ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ دنیا کی دیگر جامعات جن میں آکسفورڈ، کیمرج، برکلے، کولمبیا اور دیگر مقامات میں قائم اقبال چیئر کا کیا حال ہے۔ البتہ ایک اقبال شناس کے مطابق جموں اور کلکتہ میں وہاں کی ریاستی حکومتوں کی جانب سے قائم گئی اقبال چیئر فعال اور کام کررہی ہیں۔
فرینکفرٹ میں مقیم معروف شاعر، ادیب اور صحافی سید اقبال حیدر متعدد بار جرمنی میں پاکستان کے سفیر، صدر پاکستان اور دیگر اعلی حکومتی شخصیات کی توجہ اس جانب مبذول کراچکے ہیں لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور یہ پوسٹ چار سال سے خالی ہے۔
ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں جنوبی ایشیائی شعبے میں اردو کی پروفیسر کرسٹینا اسٹربیلد سے ملاقات بہت مفید رہی۔ ان کے دفتر میں اردو کی بہت زیادہ کتابیں دیکھ کر بہت اچھا اور انہیں اپنی کتابیں افکار تازہ اور سبق آموز کہانیاں پیش کیں جو انہیں شکریئے کے ساتھ قبول کیں۔ ان سے اقبال چیئر کی بابت دریافت کیا تو انہوں نے ایک دفتر کی جانب اشارہ کیا جس کا بند دروازہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔
جو قومیں اپنے قومی رہنما کے حوالے سے اس قدر بے حسی کا شکار ہوجائیں، وہ کیسے کہہ سکتی ہیں کہ ہم زندہ قوم ہیں؟
ہائیڈل برگ میں ایک ہفتہ جرمن کینسر ریسرچ سینٹر اور ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے ایک تحقیقی مرکز میں مصروفیت رہی جبکہ ہر شام کو خوشگوار موسم میں ہائیڈل برگ کی سیر بہت پر لطف رہی۔
پہاڑوں کے درمیان دریا اور اس کے دونوں طرف پھیلی ہوئی خوبصورت وادی بہت حسین منظر پیش کرتی ہے۔ ہائیڈل برگ کی فضا بہت صاف ہے اور غالباً یہ جرمنی کا واحد شہر ہے جہاں صنعتیں نہیں۔ اس لیے فضائی آلودگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دریائے نیکر کی خاموش روانی دیکھ کر ذہن علامہ کہ نظم ’’ایک شام‘‘ کی طرف چلا جاتا ہے جو انہوں نے اسی دریا کےلیے لکھی۔ یہ نیکر کا سحر تھا جس نے علامہ کو یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ
کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے
نیکر کا خرام بھی سکوں ہے
تاروں کا خموش کارواں ہے
یہ قافلہ بے درا رواں ہے
جس گھر میں علامہ اقبال مقیم رہے، اس کے عقب سے ایک گلی جس کا نام ’’فلسفی اسٹریٹ‘‘ ہے، بلندی کی طرف جاتی ہے جہاں سے دریائے نیکر اور ہائیڈل برگ شہر اور اس کے قلعے کا شاندار نظارہ کیا جاسکتا ہے۔
ہمارے جرمن میزبان ہمیں خصوصی طور پر اس طرف لے کر آئے اور واپسی کا سفر بل کھاتی ہوئی تنگ گلی کے راستے ہوا جسے سانپ گلی کا نام دیا گیا ہے اور یہ بلندی سے سیدھی نیچے آتی ہے۔ ہائیڈل برگ کی پیدل سیاحت کےلیے اس گلی کا انتخاب صرف اس صورت میں کرنا چاہیے اگر چھوٹے بچے ہمراہ نہ ہوں۔
ہائیڈل برگ کا پرانا شہر ایک چھوٹا سا اور پیارا شہر ہے جہاں ہر وقت سیاحوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ ہائیڈل برگ کا قلعہ قابل دید ہے اور یہاں تک پہنچنے کےلیے ایک خصوصی ٹرین سے آنا پڑتا ہے۔ قلعے سے شہر کا دلفریب نظارہ ہوتا ہے۔
اس قلعے کے اندر ادویہ کے بارے میں میوزیم قائم ہے جو سیاحوں کی دلچسپی کا اہم مرکز ہے۔
ہائیڈل برگ ایسا حسین اور پرسکون شہر ہے کہ ایک بار کی سیاحت کے بعد جی چاہتا کہ اسے پھر دیکھا جائے۔ علامہ نے یونہی تو اسے ’’شہرِ خوبصورت خواب‘‘ نہیں کہا تھا۔