تحریر رفعت خان
ویسے تو بھوک کا احساس ہر انسان کو محسوس ہوتا ہے کسی کو پیسے کی بھوک کسی کو اونچے نام کی بھوک کسی کو اعلی مقام کی بھوک کسی کو نت نئے فیشن عمدہ لباس کی بھوک کسی کو لذیذ کھانوں کی بھوک تو کسی کو چمکتی گاڑی کی بھوک کسی کو کرسی کی بھوک، کیا طلب کا دوسرا نام بھوک ہے؟؟؟ ہمیں جب بھی بھوک لگتی ہے ہم بھوک کے احساس کو وقتی محسوس کرتے ہیں اور پھر اپنے من پسند لوازمات سے بھوک مٹا کر اپنی بڑی بڑی چمکتی گاڑیوں میں اپنے بچوں کو لے کر سیروتفریح ،یااپنی کسی ڈیل، لانگ ڈرئیو یا پھر کسی کلب کے لیے نکل جاتے ہیں
راستے میںسڑکوں پر ہمیں بے بس بھوک سے بلکتے بچے اپنی بھوک مٹانے کی فریاد کرتے ہوئے ملتے ہیں جنہیںہم اکثر اگنور کر دیتے ہیں کیونکہ اس وقت ہمیں اپنی مطلوبہ منزل کی دھن ہوتی ہے اور بھوک کا احساس تک نہیں ہوتا،چلیں مان لیتے ہیں کہ ایک دو دن ہم ان غریب غربا بچوں کی کچھ مدد کر بھی دیتے ہیں مگر تیسرے روز ہم اکتاہٹ محسوس کرنے لگتے ہیں ہم سوچتے ہیں یہ ان لوگوں کا ڈھونگ ہے تنگ کرتے ہیں بہانے بنا کر پیسہ اینٹھتے ہیں، ایسا سوچنے والوں سے میرا سوال ہے صاحب !کیا ہمیں روز بھوک نہیں لگتی ؟ہاں شاید نہیں کیونکہ ہمیں جو لگتی ہے وہ بھوک نہیں در حقیقت وہ طلب ہوتی ہے اور ہم اپنی طلب لذیذ کھانوں سے باآسانی پوری کرلیتے ہیں
غریب کی طلب جب پوری نہیں ہوتی وہ ایک نوالے کو ترستا ہے اور و بھوک کو بہت قریب سے محسوس کرتا ہے ،ہر وقت لوازمات کھانے والے بھوک کو کیا جانیں کہ اصل بھوک کیا ہوتی ہے؟اک غریب مزدور جسکا اپنا گھر نہیں ہوتا وہ بھوکا رہ کر سارا سارا دن مزدوری کرتا ہے اور مزدوری ملنے پر شام ڈھلے اپنے ننھے بچوں کا پیٹ بھرنے والے اس مزدور سے پوچھو بھوک کیا ہوتی ہے؟ ایک غریب بیمار ماں کا اکلوتا بارہ سالہ بچہ جو دن بھر بڑے بڑے لوگوں کی تلخ باتیں سننے کے ساتھ ساتھ انکے جوتے پالش کرتا ہے اور سارے پیسے جمع کر کے فیصلہ نہیں سکتا کے ماں کا خالی پیٹ بھرے یا ماں کی زندگی بچانے کیلئے دوا لے،اس بچے سے پوچھو بھوک کیا ہے؟
گھروں میں کام کرنے والی ماسی بچا کھچا کھانا ملنے پر تھکن سے چور اپنی ہڈیوں کی پرواہ کیے بغیر خوشی خوشی مالکن کا ڈبل کام کردیتی ہے یہ سوچ کر کہ اج اس کے بچے بھی اچھا کھانا کھائیںگے اس ماسی سے پوچھو بھوک کیا ہوتی ہے؟کوڑا کرکٹ سے باسی کھانا اٹھا کر کھانے والے ان معصوم بچوں سے پوچھو بھوک کیا ہوتی ہے؟مگر کون پوچھے گا؟ ہاں وہ ضرور پوچھے گا جو خود کو اک لمحے کیلئے ان لوگوں کی جگہ رکھ کر سوچے گا کہ بھوک کیا ہوتی ہے ؟
شاید ہم لوگوں سے اللہ اسی لیے ناراض ہے کہ ہمارے پاس بھوکے کو کھلانے والے ہاتھ ختم ہوتے جا رہے ہیں ،اگر ہمارا ایک ہمسایہ بھوکا سوتا ہے تو اللہ ہم سے ناراض ہوتا ہے سوچیں دنیا میں کتنے لوگ جو ہم سے روٹی کا سوال کرتے ہیں اور ہم جانے انجانے میں انکار کر دیتے ہیں تو سوچیں اللہ ہم سے کیسے راضی ہو سکتا ہے؟ہم زندگی میں کتنی ہی فضول خرچیاں کر لیتے ہیں اگر ہم سب اپنے اپنے علاقے میں سب معزز گھر مل کر غریب غربا کے لیے روزانہ ایک وقت کا کھانا کھلانے کا بندوبست کر دیا کریں تو سوچیں اللہ ہم سے کتنا خوش ہوگا بے شک بہترین صدقہ بھوکے کو کھانا کھلانا ہے۔ کاش ہم سب اس مسلے کو گہرائی میں جا کر سوچیں اور اللہ پاک ہمیں ہاتھ کا سخی بننے کی توفیق عطا فرمائے آمین ہے
آدمی کو آج بہت بھوک دولت کی
بجھتی ہے کسی طور نہیں پیاس حرص کی
روٹی بھی ملی ہے اسے دولت بھی ملی ہے
لالچ نے مگر اس کا سکون نیند اڑا دی
تحریر رفعت خان