اسلامی نظریاتی کونسل نے مفتی امداداللہ کے تیار کردہ ماڈل تحفظ حقوق نسواں بل کا جائزہ لینا شروع کر دیا ۔ بل میں کہا گیا ہے شوہر کو تادیب کے لئے بیوی پر ہلکا تشدد کرنے کا حق حاصل ہوگا۔
اسلام آباد: (یس اُردو) چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا محمد خان شیرانی اسلام آباد میں کونسل اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا حقوق نسواں پر مسودہ قانون تیاری کے مراحل میں ہے۔ پنجاب حکومت نے مسودہ منظوری کے پاس اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا ۔ پنجاب حکومت کو اسلامی نظریاتی کونسل کے بغیر قانون پاس کرنے کا حق نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا اسلام نے خواتین کو بہت سارے حقوق دیئے ہیں۔ بیوی کے معاشی حقوق کی ذمہ داری شوہر پر ہے۔ خاتون اگر مرتد ہو جائے تو اس کا قتل واجب نہیں بلکہ اسے سمجھایا جائے اور اگر مرد مرتد ہو جائے تو 3 دن کی مہلت کے بعد سزا دی جائے ۔ خیبر پختونخوا حکومت نے خواتین کے قانون کا مسودے منظور ہونے سے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا۔ اس سے پہلے اجلاس میں پنجاب اسمبلی میں حقوق نسواں بل کی منظوری اور دینی حلقوں کے تحفظات کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل مفتی امداد اللہ کے مجوزہ ماڈل تحفظ حقوق نسواں بل کا شق وار جائزہ لیا گیا۔ بل میں کہا گیا ہے کہ تادیب کے لئے شوہر عورت پر ہلکا تشدد کر سکے گا۔ بل میں عورت کو حق دیا گیا ہے کہ وہ تادیب سے تجاوز پر شوہر کے خلاف کاروائی کیلئے عدالت سے رجوع کر سکتی ہے۔ غیرت کے نام پر قتل، کاروکاری، سیاہ کاری قتل تصور ہو گا۔ ونی یا صلح کے لئے لڑکی کی زبردستی شادی قابل تعزیر جرم ہو گا۔ جہیز کے مطالبے اور نمائش پر پابندی ہو گی۔ مجوزہ بل میں عورت کو وصی اور جج بننے کا حق حاصل ہو گا۔ ولی کی اجازت کے بغیر عاقلہ، بالغہ لڑکی ازخود نکاح کر سکے گی۔ خاتون نرس سے مردوں کی تیمارداری پر پابندی ہو گی۔ آرٹ کے نام پر رقص موسیقی، مجسمہ سازی کی تعلیم پر پابندی ہو گی۔ بل کے مطابق عورتیں فوجی، عسکری خدمات میں براہ راست حصہ لینے کی ذمہ دار نہ ہونگی۔ پرائمری کے بعد مخلوط تعلیم پر پابندی ہو گی۔ حجاب کی اجازت، آزادانہ میل جول پر پابندی کے ساتھ مخلوط تعلیم کی اجازت ہو گی۔ عورتوں کو مالکانہ حقوق حاصل ہونگے۔ بیک وقت تین طلاقیں دینا قابل تعزیر ہو گا۔ عورت کو نان نفقہ کی صورت میں خلع لینے کا حق حاصل ہو گا۔ عورت بچے کو دو سال تک اپنا دودھ پلانے کی پابند ہو گی۔ مجوزہ بل کی ایک سو سو تریسٹھ شقیں بنائی گئی ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل ماڈل بل بنا کر سینٹ ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کو بھجوائے گی۔