حسین نواز نے لندن فلیٹس سے متعلق منی ٹریل سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہے۔دبئی فیکٹری کی 1980 میں فروخت، سعودی عرب میں عزیزیہ اسٹیل مل کی خریدو فروخت، میاں شریف کی التھانی فیملی کے ساتھ سرمایہ کاری کی سیٹلمنٹ، حدیبیہ پیپر ملزکی آڈیٹر رپورٹس، التوفیق ٹرسٹ کا قرضہ، نیسکول، نیلسن کمپنیوں کا کنٹرول سنبھالنے کی دستاویزات، ٹسٹی سروسز کارپوریشن کی خدمات حاصل کرنے کے خط کی کاپی تاریخوں سمیت جمع کرا دی گئیں۔ قطری شہزادے کا دوسرا خط اورطارق شفیع کا بیان حلفی بھی منی ٹریل تفصیلات کا حصہ ہے۔
سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پاناما پیپرز لیکس کیس کی سماعت کر رہا ہے، حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے قطری شہزادے کا دوسرا خط پیش کیا۔خط میں کہا گیا ہے کہ دبئی اسٹیل مل بینکوں اور دبئی حکومت کے تعاون سے بنائی گئی، خط میں قطری شہزادے کی کاروباری تفصیلات بھی فراہم کی گئی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ حمد بن جاسم کا کاروباردنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے، 22 دسمبر 2016 کو لکھے جانے والا خط پہلے خط میں اٹھنے والے سوالات کے جواب میں لکھا گیا، قطر میں سرمایہ کاری کیش کی صورت میں کی گئی،کہ اس وقت قطر میں کاروبار کیش کی صورت میں ہی کیا جاتا تھا۔سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ہدایت کی کہ چارٹ بنا کر عدالتی وقفے کے بعد تحائف میں ملنے والی رقم اور بطور تحفہ بچوں میں تقسیم کا ریکارڈ پیش کیا جائے، اس میں تفصیل دی جائے کہ والد نواز شریف نے بیٹی مریم نواز کو کب کب رقم تحفہ میں دی، بیٹی مریم صفدر نے کب کب وہ رقم والد کو واپس کی۔دوران سماعت وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان جماعت اسلامی کی درخواست پر جواب عدالت میں جمع کرا دیا، جواب میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف نے وزیر اعظم کے حلف کی خلاف ورزی نہیں کی۔ لندن کے چار فلیٹس میں سے کوئی ایک فلیٹ بھی وزیر اعظم کی ملکیت نہیں اور وزیر اعظم نے 31 مارچ 2013 کو جمع کرائے گئے کاغزات نامزدگی میں کوئی غلط بیانی نہیں کی۔مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیر اعظم نے آرٹیکل 248 کے تحت عدالت سے کوئی استثنا نہیں مانگا۔سماعت کے دوران شاہد حامد نے اپنی مؤکلہ مریم نواز کے ٹی وی انٹرویو کا ٹرانسکرپٹ عدالت میں جمع کرایا، جس میں مریم نواز نےدرخواست گزاروں کے الزامات کا جواب دیا۔