لاہور (ویب ڈیسک) دوبئی میں ہم جیسے شریف النفس اور ڈرپوک سیاحوں کے لئے جن کے دل میں ناجائز امنگیں تو بہت ہوتی ہیں لیکن ان کی تکمیل کے لئے جرأت کا فقدان ہوتا ہے ان کے لئے اس شہر کی سب سے بڑی کشش’’صحرا سفاری‘‘ ہوتی ہے جس کے دوران محکمہ سیاحت کے بقول آپ آبادی سے نامور کالم نگار مستنصر حسین تارڑ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ دور صحرائوں میں چلے جاتے ہیں۔ اونٹوں کے قافلوں کے ہمراہ سفر کرتے ہیں جو شاید سمر قند اور خوقند وغیرہ کی جانب چلے جاتے ہیں۔ ایک طاقتور لینڈ روور میں سوار ہو کر صحرا کے ٹیلوں پر نہایت خطرناک سفر کرتے قلا بازیاں کھاتے ہیں اور آخر میں سرشام ایک نخلستان میں آپ کے لئے پر تکلف طعام کا بندوبست ہوتا ہے اور شعلوں کی بھڑکتی روشنی میں ایک ہوش ربا نازنین ایک ایسا بیلی ڈانس پیش کرتی ہے کہ آپ بے خود ہو کر حبیبی ہیّا ہیّاکے نعرے لگاتے اس کے گرد رقص کرنے لگتے ہیں۔ چنانچہ پرنس زرنونی کے گھر میں طعام کے اگلے روز ہم سب اس صحرا سفاری کے لئے چل نکلے۔ ہماری کوچ شہر سے نکلی اور کھلی فضا میں آ گئی۔ ہمارے علاوہ اس سفاری گروپ میں کچھ یورپی خواتین و حضرات بھی شامل تھے۔ میری ساتھی میزبان خاتون نے بیگ کھولا اور اس میں سے سووینئر چاکلیٹ نکال کر کچر کچرکھانے لگی۔ میں نے بھی اپنا حصہ طلب کر لیا۔ کوچ کا ڈرائیور پاکستانی تھا جو مخدوش قسم کے پنجابی فلمی گانوں کا شوقین تھا۔ ہمیں بھی مجبوراً شوقین ہونا پڑا۔ کسی نے اعتراض کیا کہ گورے کب کہیں گے تو ڈرائیور کہنے لگا۔ انہیں کون سا سمجھ آ رہی ہے۔ ویسے بھی انہیں سیکسی گانے پسند ہوتے ہیں۔ کچھ دیر بعد کوچ رک گئی۔شاہراہ کے بائیں جانب ایک باڑے کے اندر چند مریل سے اونٹ کھڑے تھے۔ ہمارے گائیڈ نے، جو کہ پاکستانی تھا اعلان کیا کہ خواتین و حضرات اونٹ۔ اس پر گورے اور گوریاں بہت پرمسرت ہوئے کہ اونٹ۔ میں نے گائیڈ سے پوچھا کہ ان اونٹوں کا کرنا کیا ہے۔ کہنے لگا ان کے ساتھ تصویریں کھنچوائیں۔ خالص عربی اونٹ ہیں‘ میں نے کہا کہ اگر عربی ہیں تو موٹے تازے کیوں نہیں۔ اتنے سوکھے سڑے کیوں ہیں۔ کہنے لگا عربی اونٹ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جلدی سے فوٹو اتار لیں ہم نے روانہ ہونا ہے‘ مجھے یہاں چولستان میں چنن پیر کے میلے میں شامل وہ خوبصورت سجے سجائے ‘ جھالروں والے اونٹ یاد آ گئے جو الغوزے کی دھن پر رقص کرتے ہیں۔ اونٹوں سے فارغ ہو کر ہم نے کچھ اور فاصلہ طے کیا اور پھر رک گئے‘ یہاں جو صحرا تھا اس نے میرا دل موہ لیا۔ یہ ایک زرد ریت کا بے انت صحرا تھا جس کے اندر کھو جانے کو جی چاہتا تھا۔ چاہے بندہ پیاس سے مر جائے۔ صحرا کنارے چند لینڈ روور سیاحوں کے منظر تھے۔ ہمارے حصے میں جو لینڈر روور آیا، اس کا ڈرائیور بھی پاکستانی ہونے کے اور کیا ہو سکتا تھا وہ ایک درویش سا ڈرائیور تھا جو لگتا تھا کہ اونگ رہا ہے۔ اس نے ریت کے ٹیلوں پر لینڈ روور کو خوب الٹا سیدھا کر کے۔ ترچھے زاویوں پر یوں چلایا جیسے ابھی ابھی ہم اوندھے ہو جائیں گے ایک ٹیلے سے یکدم تیزی سے نیچے گرے تو گوریوں کی چیخیں نکل گئیں اس پر ڈرائیور اونگھ سے بیدار ہو کر کہنے لگا’’ایک‘‘ میں نے پوچھا بھیا کیا ایک ؟ تو بولا ٹور آپریٹر کی ہدایات ہیں کہ سفاری کے دوران لینڈ روور کو بظاہر یوں ڈرائیو کرو جیسے یہ الٹنے کو ہے تو گوریاں چیخیں ماریں گی۔ کم از چار مرتبہ یہ چیخیں ماریں تو سفاری مکمل کرو اس لئے ایک!’’صحرا سفاری‘‘ تو محض کھیل تماشا تھا۔ پاکستانی شمال میں تو ایسے ایسے مرگ آور جیپ ٹریک تھے کہ گوریاں مسلسل چیختی ہی رہیں۔ مریل اونٹوں اور اس مصنوعی سفاری کے بعد ہماری تمام تر امیدیں صحرائی شب میں رقص کرتی بیلی ڈانسر سے بندھ گئیں۔ کوچ نے بمشکل چند کلو میٹر کا سفر طے کیا اور رک گئی۔ صحرا میں لگتا تھا کہ بہار آئی ہو۔ خیمے لگے ہوئے تھے عربی بولتیں سنائی دے رہی تھی کباب سلگ رہے تھے اور سورج ڈوب رہا تھا۔ یہ صحرائی کیمپ صحرا کے اندر نہ تھا کہ ہر جانب ریت ہی ریت پر اور پیاسے مجنوں سے ملاقات ہو جائے۔ شاہراہ کی قربت میں تھا۔ ریت کی کوالٹی بھی یونہی سی تھی۔ لگتا تھا کہ کسی زیر تعمیر عمارت میں استعمال ہونے والی ریت کو بچھا کر اس پر خیمے لگا دیے گئے ہیں۔ ایک چھوٹے سے خیمے میں مے خانہ آباد تھا۔ ایک پاکستانی نے جانے کیوں مجھے شکایت کی کہ تارڑ صاحب یہ لوگ تو لوٹتے ہیں۔ ایک گلاس کے لئے پوری بوتل کے پیسے وصول کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ حضرت یہ صحرائی ماحول کے پیسے ہیں تو وہ کہنے لگے دفع کریں ماحول کو۔ ہم تو ہلا گلا کرنے آئے تھے۔ بہرحال ایک ہم وطن صاحب جو دوبئی میں مقیم ہیں خفیہ طور پر شراب فروخت کر رہے ہیں۔ ان سے رجوع کرتے ہیں۔ انتظام فرشی نشست کا تھا۔ شب بھڑک رہی تھی اور صحرا سے ہولے سے باد نسیم چلی آ رہی تھی اور ساتھ یہ وہ بھی مٹکتی ہوئی چلی آئی۔ موسیقی کی تال پر دھم سے اکھاڑے میں کود پڑی۔ قدرے فربہ خاتون جس کے اچھے زمانے گزر چکے تھے‘ اس نے دو چار گھمن گھیریاں کھائیں۔ سیاحوں کے ساتھ تصویریں اتروائیں اور غائب ہو گئی، ہم دیکھتے ہی رہ گئے۔ ہم تو اس خیال خام میں مبتلا تھے کہ ساقیا آج مجھے نیند نہیں آئے گی۔ سنا ہے تیری محفل میں رت جگا ہے۔ شدید مایوسی کے عالم میں کھانا تناول کیا اور ہوٹل لوٹ آئے۔ یہ تو گئے زمانوں کی داستانیں تھیں اور اب زمانہ حال میں ہم دوبئی کے ایک ہوٹل میں پڑے تھے اور آرلینڈو جانے والی پرواز میں ابھی پندرہ گھنٹے باقی تھے۔ اس دوران اطلاع کی گئی کہ ایک صاحب بشارت نام کے آپ کولینے آئے ہیں۔ بلکہ ان کے بال بچے بھی لینے آئے ہیں۔ معلوم ہوا کہ سلجوق کے دوست ہیں۔ اس نے رابطہ کر کے کہا کہ امی اور ابو ایک ہوٹل میں بے آسرا پڑے ہیں۔ انہیں دوبئی دکھا دو۔ بشارت کی بیگم نے نہایت تفصیل سے ہمیں ہر علاقے اور ہر عمارت کے بارے میں بتایا۔ ہم نے دنیا کی بلند ترین عمارت برج الخلیفہ کو بھی دور سے سلام کیا۔ اگر لوگ کہتے ہیں تو سچ ہی کہتے ہوں گے۔ ضرور بے بہا رقم خرچ کر کے اس کی آخری منزل پر جا کر چیک کرنا ہے کہ یہ دنیا کی بلند ترین عمارت ہے۔ اس سردار جی کی مانند جو چھلکے سمیت کھیلا کھا رہے تھے۔ کسی نے اعتراض کیا تو کہنے لگے۔ پتہ ہے کہ اس کے اندر کیلا ہے‘ ضرور چھلکا اتار کر چیک کرنا ہے۔ ازاں بعد سمندر میں ایک پام کے درخت کی صورت پھیلے ہوئے رہائشی علاقے پام جمیرا کو گھنی تاریکی میں دیکھنے کی کوشش کی۔ کچھ نظر نہ آیا۔ ’’اٹلانٹس‘‘ نامی ہوٹل کی قلعہ نما عمارت البتہ نظر آ گئی کہ روشنیوں سے شرابور تھی۔ بشارت خاندان رات کے کھانے کے لئے ہمیں ترک ریستوران ’’باسفورس‘‘ میں لے گیا جہاں پر ذائقہ ترک خوراک اتنی کھائی کہ ہم کچھ تُرک تُرک سے ہو گئے۔ حسب روایت پاکستانی قونصلیٹ کی جانب سے آفریدی نام کے ایک باریش پروٹوکول افسر کو بھیجا گیا تاکہ ہم خیر خیریت سے آرلینڈو جانے والی پرواز پر سوار ہو جائیں۔ آفریدی صاحب مجھے دیکھ کر مسرت سے مغلوب ہو گئے اور کہنے لگے’’تارڑ صاحب میں آپ کو بچپن سے دیکھتا آیا ہوں‘‘ وہ مجھے اچھے نہ لگے کہ اچھا تو میں اتنا پیر فرتوت ہو چکا ہوں۔ اب سمجھ میں آیا کہ ملکہ ترنم کو جب کہا جاتا تھا کہ میڈیم ہم تو آپ کو بچپن سے سنتے آئے ہیں تو وہ طیش میں کیوں آ جاتی تھیں۔ایمیٹرس کی آرلینڈو جانے والی پرواز کی بزنس کلاس میں آرام بہت تھے۔ ایئر ہوسٹس نے ہمارے لئے باقاعدہ بستر سے بچھا دیے جن پر ہم دراز ہو گئے۔ خوراک دل پسند اور مشروبات کی فراوانی۔ یہاں گراں ہے مئے لالہ فام والی بات نہ تھی کہ پیو کہ مفت لگا دی ہے خون دل کی کشید کی پیشکش مسلسل تھی۔ مجھے عدم کا وہ شعر یاد آ گیا۔ پتہ نہیں ٹھیک یاد آیا کہ نہیں آپ کو تو یاد ہو گا کہ ؎ میں مے کدے کی راہ سے ہو کر نکل گیا ورنہ سفر حیات کا کافی طویل تھا آرلینڈو تک پندرہ گھنٹے طویل سفر تھا۔ اگر میں بھی مے کدے کی راہ سے ہو کر نکل جاتا تو شاید پندرہ منٹ میں پہنچ جاتا۔