تحریر: عمران احمد راجپوت
حیدرآباد پا کستان کے صوبہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے جوکہ بحیثیت ضلع چار تحصیلوں حیدرآباد سٹی،لطیف آباد ، قاسیم آباد اور حیدرآبادکے دیہی علاقوں پر مشتمل ہے یہ 1935 ئ تک سندھ کا دارالخلافہ رہ چکا ہے۔ اِس شہر کی بنیاد 1768 ئ میں میاں غلام شاہ کلہوڑو نے رکھی تھی۔ کہتے ہیں خدا آباد میں مسلسل آنے والے سیلابوں نے سندھ کے حکمران میاں غلام شاہ کلہوڑو کو پریشان کررکھا تھا بالآخر 1760 ئ کی دہائی کے اختتام پر انھوں نے خدا آباد کوخیر آباد کہتے ہوئے اپنا دارالخلافہ دریا کی کسی نئی ساحلی پٹی پر بسانے کا ارادہ کیا ۔ لہذا غلام شاہ کلہوڑو کو دریا سندھ کے کنارے ایک اونچی پہاڑی پر قائم گنج یا گنجو نامی ماہی گیروں کی ایک قدیم بستی کے گھنڈرات پر نیا شہر تعمیر کرنے کے لئے جگہ میسر ہوئی مچھیروں کی یہ قدیم بستی نیرون کوٹ کے نام سے بھی جانی جاتی تھی۔ حیدرآباد شہر کے بیچوں بیچ ایک عظیم الشان قلعے کی باقیات موجود ہیں کبھی اِس کی شان و شوکت کے چرچے ہر جگہ ہوا کرتے تھے۔
آج اِس شان و شوکت کا صرف کچھ حصہ ہی باقی بچا ہے ہاں ایک دیو ہیکل دروازہ اب بھی موجود ہے جو اپنی خستہ حالی پر دہائی دیتا نظر آتا ہے۔اِسے میاں غلام شاہ کلہوڑوں نے حیدرآباد کی بنیاد رکھتے وقت تعمیر کرایا تھااِس قلعے کی بنیادوں میں حکمرانوں کے عروج و زوال کی داستانیں دفن ہیں جسے پھر کسی وقت کے لئے اُٹھا رکھتے ہیںاس قلعے کے کچھ ہی فاصلے پر کلہورڑو خاندان کے مقبروں پر مشتمل ایک اور قلعہ جو کچہ قلعہ کے نام سے موسوم ہے جسے گار اور چکنی مٹی سے تعمیر کیا گیاتھا یہ دونوں قلعے اپنے وقتوں کی فنی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ پاکستان کے وقوف میں آنے سے پہلے اِس شہر کو ہندوستان کے پیرس کا درجہ دیا جاتا تھا کیونکہ اِس کی سڑکیں روز گلاب کے عرق سے صاف کی جاتی تھیں ۔ سیاسی اعتبار سے حیدرآباد کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔
کیونکہ یہ شہری اور دیہی سندھ کے درمیان ایک دروازے اور پل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں کئی عالم اور صوفی شاعر و درویشوں کی پیدائش ہوئی ہیںجو اِس شہر کی تہذیب و ثقافت پر گہرا اثر چھوڑے ہوئے ہیں ۔ اِس کے ساتھ ساتھ یہ شہر دنیا کی سب سے بڑی چوڑیوں کی صنعت گاہ کے طور پر بھی اپنی ایک پہچان رکھتا ہے جو حکومتی توجہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ نمایا خصوصیت اپنی حیثیت کھوتی جارہی ہے۔ پاکستان کے اہم تاریخی و تہذیبی شہروں میں اِس کا اپنا ایک نمایاںمقام ہے حال ہی میں اِس شہر سے تقریباً 110 کلومیٹر کی دوری پر امری ہے جہاں ہڑپہ کی ثقافت سے بھی قبل ایک قدیم تہذیب کی دریافت کی گئی ہے ۔ اِس کے علاوہ اِس شہر کے تعلیمی ادارے بھی ایک وقت میں اپنی منفرد پہچان رکھتے تھے حیدرآباد میں تقسیم ہند کے بعد بنائی گئی سب سے پہلی درسگاہ سندھ یونیورسٹی جس کے ساتھ میڈیکل یونیورسٹی کا قیام اِس شہر کے ماتھے کا جھومر ہے۔
پاکستان بننے سے پہلے حیدرآباد کا تعلیمی نظام اِس قابل نہ تھا کہ ہندوستان کے نامور اداروں میں اِسکا شمار کیا جاسکے تقسیم کے بعد یہ شہر اندرونِ سندھ دیہاتوں سے جاملا تھا لہذا یہاں ایک بڑی تعلمی درسگاہ کی انتہائی ضرورت محسوس ہونے لگی جس کے لئے ترجیحی بنیادوں پر سندھ یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ حیدرآباد میں زیادہ تر لوگ سندھی ہیں کیونکہ اکثر اشخاص جو اِس شہر میں آتے ہیں وہ اندورنِ سندھ کی جانب سے آنے والوں کی ہے جو تعلیم حاصل کرنے کے ارادے سے سندھ یونیورسٹی میں پڑھنے آتے ہیں جو حیدرآبادسے 33 کلو میٹر کی دور ی پر جام شورو میں واقع ہے ۔اِس کے علاوہ اِس شہر کے آبادکاروں میں اردو پشتو اور پنجابی بولنے والے لوگ بھی شامل ہیں ۔تقسیم سے قبل اِس شہر کے مقامی صرف سندھی بولنے والے تھے لیکن 1947 ئ کی تقسیم کے بعد ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین جن کی اکثریت اردو بولنے والوں پر مشتمل تھی اب شہر کے مستقل باشندے ہیں اِس بنیاد کو لے کر ماضی میں سندھی اور اردو بولنے والوں کے درمیان اکثر تصادم رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اِس شہر کا سیاسی منظر نامہ لسانیت کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے سندھی بولنے والوں کی فیورٹ سیاسی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی اور اردو بولنے والوں کی فیورٹ سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ ہے اورضلع میں قومی اسمبلی کی کل چھ نشستوں میں سے چار پاکستان پیپلز پارٹی اور دو متحدہ قومی موومنٹ کے پاس ہیںفلحال موجودہ حالات بہتر ہیں اور دونوں اقوام باہم خوش ہیں لیکن اِن دونوںسیاسی جماعتوں کے باعث صورتحال کشیدہ ہوتی رہتی ہے جس کی وجہ دونوں جماعتوں کی جانب سے سندھ کارڈ اور مہاجر کارڈ استعمال کیا جانا ہے۔ اِس شہر میں زیادہ تر لوگ مذہب کے اعتبار سے مسلمان ہیں لیکن ایک خاص مقدار میں سندھی بولنے والے ہندو بھی یہاں رہائش پذیر ہیں اِسی طرح شہرکی تقریباً دوفیصد آبادی مقامی عیسائیوں کی بھی ہے۔
خوشبوں کی مہک میں جل تھل یہ شہر جسے ہندوستان کا پیرس کہا جاتا تھا آج صوبائی حکومت کی غفلت و لاپرواہی اور شہری حکومتوں کے نہ ہونے کے باعث یہ شہر موئنجوڈارو اور ہڑپہ کی منظر کشی کرتا دکھائی دیتا ہے صحت و صفائی کا نظام بہتر طورپر نہ ہونے کے باعث جگہ جگہ کچرہ کوڑی کے ڈھیروں سے اُٹھنے والی بدبو شہر کو کسی ویران تعفن زدہ قبر ستان کی تصویرپیش کرتی ہے جس کا کوئی پرسانِ حال نہیں دو جماعتوں کے ٹکرائو کی وجہ سے یہ شہر شہری حکومتوں کے نظام سے محروم ہے سندھیوں کی حمایت یافتہ سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نہیں چاہتی کے یہاں شہری حکومت قائم ہو اور علاقائی طور پر بھی اختیارات اردو بولنے والوں کی حمایت یافتہ جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے پاس جائیںلہذا بلدیاتی انتخابات ہمیشہ تعطل کا شکار ہوتے آئے ہیں حال ہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے نوٹس لینے پر سندھ حکومت نے اجلت میں لوکل گورنمنٹ بل 2015 قومی اسمبلی سے پاس کیا ہے جس کی متحدہ قومی موومنٹ نے بھر پور مخالفت کرتے ہوئے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے کہ اِ س بل میں منتخب نمائندوں کو اختیارات سے محروم رکھا گیا ہے لہذا انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے والے نمائندے عوامی سطح پر بہتر کام نہیں کرسکیں گے۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں شہری حکومتوں کے نظام کو یہاں بڑی پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا جبکہ اُس دور میں شہر میں کافی ترقیاتی کام ہوئے جس سے شہر کی رونقیں بحال ہونا شروع ہوئی تھیں پرویز مشرف کے بلدیاتی نظام کے دوادوارمیں اِس شہر کی نظامت کے فرائض ایک بار پاکستان پیپلزپارٹی کے سید مخدوم رفیق الزماں اور ایک بار متحدہ قومی موومنٹ کے جناب کنور نوید جمیل کے حصے میں آئے تقریبا ً دونوں ادوار میں شہر کے اندر مناسب ترقیاتی کام کئے گئے اور شہر کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی شروعات کی گئی جسے دونوں طرف کی اقوام نے دل سے سراہایا ۔ لیکن حالات کی ستم ظریفی یہ کہ ایک سازش کے تحت مشرف کو اقتدار سے ہٹادیا گیا اور ملک میں بلدیاتی نظام کے تحت ہونے والی ترقی کے تسلسل کو روک دیا گیا۔
حیدرآباد میں آج بھی پرویز مشرف کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور قوم پرویز مشرف کواپنا مسیحا سمجھتی ہے جس نے عوام کو سیاسی شعور بیدار کرنے میں کافی کارہائے سرانجام دئیے ۔آج بیس لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل یہ شہر حیدرآباد صوبائی حکومت کی جانب سے توجہ نہ دینے اور شہری حکومتوں کا نظام نہ ہونے کے سبب آہستہ آہستہ کھنڈرات کا نقشہ پیش کررہا ہے اِس شہر کو اون کرنے والی دونوں سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ اِس شہر کو بے یارومددگار چھوڑکر مفاد پرستی کی سیاست میں مشغول نظر آتی ہیںجبکہ وفاقی حکومت کی بھی اِس طرف کوئی توجہ نہیں۔
حکمرانوں کی بے حسی کے باعث سول سوسائٹی کا میدان میں آنا انتہائی ناگزیر ہوگیاہے۔ لہذا ضروری ہے کہ سندھ دھرتی کے بیٹے اور سچے سپوت شہر کی تعمیرو ترقی کے لئے آواز بلند کریں نیز یہ کہ حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے چاہئیے کہ غفلت سے جاگیں اور اِس شہر پر خاص توجہ دیتے ہوئے فور ی طور پر ایک ایسا بلدیاتی نظام متعارف کرائیں جس میں اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کیا جاسکے تاکہ شہر میں تعطل کا شکار ترقیاتی کاموں کو پائے تکمیل تک پہچایا جاسکے ۔ یاد رکھیں اگرجلد سے جلد اِس کا تدارک نہ کیا گیا تو یہ تاریخی ورثہ واپس مچھیروں کی قدیم بستی میں تبدیل ہوکرپھر سے ایک ماضی بن کر رہے جائے گا۔
تحریر: عمران احمد راجپوت
بیورو چیف حیدرآبادماہنامہ روابط انٹرنیشنل
ممبر کالمسٹ کونسل آف پاکستان
ممبر ہماری ویب رائٹر کلب
CNIC: 41304-2309308-9
Email:alirajhhh@gmail.com
حیدرآباد، سندھ