تحر یر :اقبال زرقاش
آج کے جدید دور میں آزادی اور غلامی کے الفاظ کو ایسا خوشنما لباس پہنا دیا گیا ہے کہ یہ فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ ہم غلام ہیںکہ آزاد۔اس کی مثال ہم جدید دور کے چڑیا گھروں سے لے سکتے ہیںجہاں نایاب پرندوں اور جانوروں کو ان کے قدرتی ماحول میں رکھنے کے لیئے (پرندوں اور جانوروں کو دھوکا دینے کے لیئے )جدید طریقے اپنائے جاتے ہیںبظاہر یہ پرندے اور جانور خود کو آزاد اور فطر ی ماحول میں آزاد محسوس کرتے ہیں لیکن در حقیقت وہ ایک متعین کروہ وسیع والعریض حدود کے اند ر قید کردیئے جاتے ہیں اس بات کا پتہ پرندوں اور جانوروں کا تب چلتاہے
جب وہ اپنی اُڑان ایک حد سے اوپر لے کر جاتے ہیں تو اُنھیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک خوشنما جال میں قید ہیں اور اسی طرح جب جانور اپنی حدود سے آگے نکلتے ہیں تو اسے دور دور تک اپنے گرد ایک حصار اک فصیل کا پتہ چلتا ہے وہ جس فضااور زمین کو اپنی آزادی کا محور سمجھتے ہیں وہ در حقیقت مصنو عی آزادی ہوتی ہے ۔ جبکہ در حقیقت وہ پابندِ سلاسل ہو کر مفلوج جانداروں کی طرح اپاہج زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔
ہمارے ملک پاکستان میں بسنے والے اٹھارہ کروڑ عوام کا حال بھی جدید چڑیا گھروں کے جانوروں جیسا ہو کر رہ گیا ہمارے آباؤ اجداد نے 1947 میں لاکھوں جانوں کے نذرانے دیکر سرُخ و سفید سامراج سے آزادی حاصل کی مگر ہم نے آزادی کی سانس لی ہی تھی کہ شروع دن سے سازشوں کا عمل شروع ہو گیا ۔انگریز سامراج کے انعام یافتہ چند جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور صنعت کاروں نے اپنے آقا (انگریز سرکار) سے وفاداریاں نبھاتے ہوئے ملک کو ڈالروں کے عوض غلامی کے اس جال کے اندر پابندِ سلاسل کروا دیا جو اس چڑیا گھر کی مانند ہیں جہاں ہم آزاد بھی ہیں اور غلام بھی ہمارے ملک کا ہر پیدا ہونے والا بچہ بھی انگریز سامراج کے ڈالروں کی زنجیروں میں جکڑا ہو ا اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے۔
ہمارے ملک کی تقدیر کے تمام فیصلے کہیں اور ہوتے ہیںہمارے حکمران ایک کٹھ پتلی کے سوا کچھ نہیںہوتے وہ اپنے آقا (انگریز سامراج)کے اشاروں پر ناچتے ہیں حتیٰ کے ان کا سانس لینا بھی انھی کا مرہون منت ہوتا ہے ۔بدقسمتی سے ہماری تاریخ گو اہ ہے کہ مسلمان وہ بد قسمت قوم ہے جس کی تباہی اور بربادی میں ہمیشہ اپنے لوگوں کی غداری اور منافقت شامل رہی ۔کربلا میں نواسہ ِ رسول ۖ سے لیکر پاک و ہند میں شیر میسور ٹیپو سلطان تک میر جعفر اور میر صاوق جیسے لوگوں سے بھری پڑی ہے ۔آج بھی ہمارے حکمرانوں نے اپنی تمناؤں کا مرکز سرُخ و سفید سامراج کو بنا رکھا ہے۔
وہ صیہونی اور ہندی سرُخ و سفید سامراج کی گھناؤنی سازشوں کا شکارہیںاور سامراجی مقاصد کی تکمیل کرنے کے لیئے پاکستان میں منافقین کا ایک ابنوہ کثیر اور جم غفیر موجو د ہے جو بسکٹ کی چاٹ پر ہر ماسٹرز وائس کا کام کرتاہے اور اپنے آقا ؤں کی مرضی کے مطابق ہر سانچے میں ڈھل کر ملت ِ اسلامیہ کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے درپے رہتا ہے جو ہمارے اندر انتشار اور اختلاف کا بیج بوتا ہے کہیں یہ ترقی پسندی کا خوبصورت لباس پہن کر سامنے آتا ہے اور کہیں فسق و فجور ،اختلاف اور نفاق کا طرہ امتیاز ہوتاہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام کے انہی بد ترین دشمنوں نے پہلی جنگ عظیم میں ترکی کی خلافت کو ختم کیا عرب ممالک کو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اتنی چھوٹی چھوٹی حکومتیں بنائی کہ عالم اسلام کے اس کلیدی خطے کی طاقت کبھی مجمع ہوکر کفر سے نبر آزما ہونے کی صلاحیت پیدا نہ کرسکے ۔یہی وہ عالم اسلام کے نام نہاد خیر خواہ ہیں جنہوں نے لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے ملک سے نکال کر سرُخ و سفید سامراج کے ناجائز بچے اسرائیل کو جنم دیا اور پھر اس کے پشت پناہ بن کر مصر ،اُردن اور شام کے علاقوں کو غضب کروایا اسلامی سربراہوں کے خلاف اندروں ملک بغاوتیں کروائیں انکی حکومتوں کو کمزور کیا پاکستان کو تو دو لخت کر دیا اسی پر بس نہیں بلکہ یہی وہ کفار ہیں
جنہوں نے اسلامی ممالک میں اسلامی جذبے کو نابود کرنے کی سازشیں کیں۔درلخت پسندی کا طعنہ دے کر خدا پرستوں اور مسلمانو ں کا خون بہایا ۔اسلامی ممالک کو کمزور سے کمزور تر کر کے سیاسی اور اقتصادی بد حالی سے تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا تاکہ مسلمانوں کو غلامی کی زنجیروں میںچڑیا گھر کے پرندوں اور جانوروں کی طرح پابند ِ سلاسل کی دیا جائے اور وہ ایک حد تک مصنوعی آزادی میں سانس لے سکیں ،افغانستان میں جب خوسر طالبان کی حکومت وجود میں آئی اور انہوں نے سرُ خ و سفید سامراج کی غلامی سے انکار کیا تو 9/11 کا واقعہ جس کا آج تک سراغ نہیں مل سکا خود ساختہ ڈرامہ رچاکر افغانستان کو جلاکر راکھ کا ڈھیر بنا دیا
بچے کھچے زندہ رہنے والے افراد کو نکیل ڈالنے کے لیئے افغانستان میں اپنی فوجیں اتار دیںاپنی جدید ٹیکنالوجی پر مشتمل اسلحہ کیلیئے افغانستان کو ایک تجربہ گاہ بناکر خون ِ مسلم کی ندیا ں بہا دی گئیں اس کے باوجود وہ خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکا اب ہندوستان کے ساتھ مل کر ایسی سازشیں تیا ر ہو رہی ہیںجسکا نشانہ پاکستان ہے کہ آج ہمارے شہر ہمارے سکول ہماری مسجدیں ہماری امام بارگاہیں خون سے رنگین ہو گئیں ہیں۔ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ افراد خود کش حملوں بم دھماکوں کی نظر ہو رہے ہیںکل تک ہم جس کو کسی اور کی جنگ کہتے تھے
آج یہ ہماری اپنی جنگ بن چکی ہے ۔طالبان اور القاعدہ کی بندوقوں کا رخ ایک سازش کے تحت ہماری طرف موڑ دیا گیا ہے ہماری پاک افواج اپنی سرحدوں اور شہروں کی حفاظت کے لیئے لازوال قربانیا ں دے رہی ہے اور ہم اس وقت حالت جنگ میں ہیںدوسری طرف بھارت نے ہمارے سرحدی ایریا میں آئے روز کشیدگی پیدا کر رکھی ہے اور ہماری رینجر کے جوان اور شہری شہید کیے جا رہے ہیں۔
ملک دشمن بیرونی طاقتوں کا اصل حدف ہمیں اقتصادی اور دفاعی طور پر کمزور کرنا ہے اک طرف ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں جانیں دے رہے ہیں اور دوسری طر ف دہشت گردی کو مسلمانوں کے ساتھ منسوب کیا جا رہا ہے
تو اور اب انسان کامل صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر اسلام کے تضیحک آمیز خاکے بنا کر آزادی کے نام پر صحافتی دہشت گردی کی جارہی ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ مسلمانو ں کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک ہمارے دل میں اپنے مال ،اولاد اور جان سے زیادہ رسول پاک ۖ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی محبت نہ ہو ۔جنگ اُحد میں ایک صحابی زخمی ہوئے وہ دم توڑ رہے تھے رسول پاک ۖ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم ان کے پاس تشریف لے گئے فرمایا کوئی آرزو ہو تو بتاؤ؟ اس زخمی صحابی نے اپنے جسم کو گھسیٹا اور سر رسول پاک ۖ کے قدموں میں ڈال دیا کہ یہی زندگی کی واحد اور آخری خواہش تھی ۔مولانا ظفر علی خان نے بجا فرمایا تھا
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی عزت پر
خُدا شاہد کہ کامل میرا ایمان ہو نہیں سکتا
آج اس دور میں جب پھر کفرو تاریکی چھا رہی ہے تما م اسلامی ممالک کفار کے نرغے میں ہیںاُمت ِ مسلمہ محروم یقین ہے ۔ضرورت اس آمر کی ہے کہ رسول مقبول ۖ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے ارشادات و فرمودات کو زندگی کا سہارا اور مشعل بنا لیا جائے اور کفر کے چڑیا گھر سے خود کو آزاد کرانے کے لیئے منافقت اور مفاد پرستی کے خول سے باہر نکلا جائے اس میں ہماری بقاء ہے۔
تحر یر ۔ اقبال زرقاش