تحریر۔ مبشر علی زیدی
گزشتہ ماہ باس نے کہا، ’’مبشر! امریکا کا ایک مشہور فوٹوگرافر پاکستان آیا ہوا ہے۔ اُس کی خبر اپنے بلیٹن میں شامل کرلینا۔‘‘ میں نے پوچھا، ’’سر! کیا نام ہے اُس فوٹوگرافر کا؟‘‘ باس نے کہا، ’’اُس کا نام برینڈن اسٹینٹن ہے اور وہ ہیومنز آف نیویارک کے نام سے ایک فوٹوبلاگ چلاتا ہے۔‘‘
میں سوچ میں پڑگیا۔ یہ نام سنا سنا سا لگ رہا تھا۔ میں نے اپنی ایسوسی ایٹ پروڈہوسر تسبیحہ سے رپورٹ بنواکر بلیٹن میں شامل کرلی لیکن دماغ کہیں اٹک گیا تھا۔ گھر آکر اپنی کتابوں کے ڈھیر میں گم ہوگیا۔ کچھ دیر بعد دو کتابیں برآمد ہوئیں۔ ہیومنز آف نیویارک اور لٹل ہیومنز آف نیویارک۔
پاکستان میں کتنے لوگ ہیں جن کے پاس برینڈن اسٹینٹن کی دونوں کتابیں ہیں؟
یہ کیا کتابیں ہیں، کیا میں آپ کو بتاؤں؟ اگر آپ برینڈن کے فوٹوبلاگ کو فالو نہیں کرتے تو پھر آپ نہیں جانتے ہوں گے۔
برینڈن ایک نوجوان امریکی فوٹوگرافر ہے۔ اُس کا تعلق اٹلانٹا سے ہے۔ وہ شکاگو میں کوئی نوکری کرتا تھا۔ 2010 میں نوکری چھوٹنے کے بعد اُس نے شوقیہ فوٹوگرافی شروع کی۔ پہلے عمارتوں، پُلوں اور یادگار مقامات کی تصویر کشی کی۔ پھر نیویارک آیا اور یہاں عام لوگوں کے فوٹو کھینچنے لگا۔ پیسے کمانے کے لیے نہیں، اپنے بلاگ کے لیے۔ اِسے اسٹریٹ فوٹوگرافی کہتے ہیں۔ وہ تصاویر کے ساتھ لوگوں کی کہانی بھی لکھ دیتا تھا۔ اُس کا بلاگ مشہور ہوگیا۔ مختصر عرصے میں فیس بک پر اُس کے چاہنے والوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ ہوچکی ہے۔
ہیومنز آف نیویارک کی تازہ کہانیاں آپ کو فیس بک پر مل جائیں گی۔ لیکن کیا میں آپ کو اُس کی کتاب سے دو کہانیاں سناؤں؟ دیکھتے ہیں مبشر علی زیدی کا قلم تصویر کشی کرسکتا ہے یا نہیں!
یہ تصویر فلی پیج کی ہے جو یوگوسلاویہ کا مہاجر ہے۔ اِس نے لمبا سا آسمانی کوٹ، سیاہ پینٹ اور موٹے موٹے جوتے پہنے ہوئے ہیں۔ اِس کے سر پر گریجویشن کرنے والے طلبہ جیسی ٹوپی ہے۔ فلی پیج بارہ سال پہلے امریکا آیا تھا۔ یہاں اِسے کولمبیا یونیورسٹی میں ٹوائلٹ صاف کرنے کی ملازمت ملی۔ وہ روزانہ صبح سے رات گیارہ بجے تک مزدوری کرتا رہا۔ رات گیارہ بجے کے بعد وہ پڑھائی کرتا تھا۔ بارہ سال کی سخت محنت کے بعد اِس ہفتے اِس نے گریجویشن کرلیا ہے۔ برینڈن لکھتا ہے کہ میں اپنی زندگی میں ایسے کم لوگوں سے ملا ہوں۔
یہ تصویر دو پریمیوں کی ہے۔ مرد امریکی ہے۔ خاتون کورین ہے۔ دونوں کی عمر چالیس سال سے زیادہ لگتی ہے۔ برینڈن نے اِن کے نام نہیں لکھے۔ خاتون کی زبانی ایک کہانی سنائی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’یہ میرا پہلا پیار ہے۔ ہم دونوں پہلی بار تب ملے جب نوجوان تھے۔ صرف دس دن تک مل سکے۔ پھر میری ماں نے کہا، ’یہ امریکی ہے، اداکار ہے، یہ زندگی بھر کچھ نہیں کرسکے گا۔ اور سنو! دنیا میں لاکھوں مرد ہیں لیکن میں تمھاری واحد ماں ہوں۔‘ میں نے ماں کی بات مان لی۔ اس کے ساتھ کوریا واپس چلی گئی۔ میری شادی ہوگئی۔ بیس سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا۔ میں اب امریکا آئی ہوں۔ یہاں یہ شخص مل گیا، جو اپنی تھیٹر کمپنی چلا رہا ہے۔ ہم دونوں شادی شدہ ہیں۔ ہم دونوں بچوں والے ہیں۔ لیکن دیکھو! ہم پھر مل گئے ہیں۔‘‘
تعجب کی بات ہے کہ بیس سال بعد دو پریمی جہاں ملے، وہاں اتفاق سے برینڈن بھی موجود تھا۔
برینڈن گزشتہ دنوں پاکستان آیا اور اُس نے یہاں کی تصاویر اور کہانیاں اپنے بلاگ پر شیئر کیں۔
ابھی گزشتہ ہفتے کی بات ہے، 28 اگست 2015 کو جنگ میں 100 لفظوں کی ایک کہانی شائع ہوئی تھی، جو میرے اور برینڈن کے مکالمے پر مبنی تھی۔ کیا وہ کہانی یہاں یاد دلاؤں؟
اُس کہانی کا عنوان ’’تحفہ‘‘ تھا۔
۔
’’میں اسکول میں فرسٹ آیا تو پاپا نے ایک کیمرا تحفے میں دیا۔
میں اُس کیمرے سے روزانہ سو تصاویر کھینچتا ہوں۔
ایک کہانی لکھتا ہوں۔‘‘
برینڈن اسٹینٹن نے مجھے اپنی کہانی سنائی۔
وہ امریکی فوٹوگرافر ہے۔
اُس کا فوٹوبلاگ ہیومنز آف نیو یارک پوری دنیا میں مشہور ہے۔
گزشتہ دنوں وہ کراچی آیا تو اُس سے اتفاقیہ ملاقات ہوئی۔
’’اپنے بارے میں کچھ بتاؤ۔‘‘ برینڈن نے کہا۔
میں نے اُسے اپنی کہانی سنائی،
’’میں اسکول میں فرسٹ آیا تو بابا نے ایک قلم تحفے میں دیا۔
میں اُس قلم سے روزانہ سو الفاظ کھینچتا ہوں۔
ایک کہانی لکھتا ہوں۔‘‘۔
برینڈن یہاں سے ایران گیا اور آج کل وہاں کے فوٹوز دنیا کو دکھا رہا ہے۔
تین ستمبر کو اُس نے ایک ایرانی باپ اور بیٹے کی تصویر اپ لوڈ کی ہے۔ اُس کے ساتھ باپ کے الفاظ میں یہ کہانی درج ہے:
آج میرے بیٹے کی دسویں سالگرہ ہے۔ یہ ایک بے حد جذباتی لڑکا ہے۔ یہ دوسروں کے مسائل حل کرنا چاہتا ہے۔ ایک بار، جب یہ پانچ سال کا تھا، میں اِسے پھلوں کی دکان لے گیا اور وہاں سے ایک کلو خوبانیاں خریدے۔ میں نے وہ تھیلا اِس کے حوالے کردیا۔ میں آگے آگے چلا اور یہ پیچھے پیچھے۔ گھر پہنچ کر میں نے کہا، ’بیٹے! ایک خوبانی مجھے دو۔‘ بیٹے نے کہا، ’اب تو ایک بھی میرے پاس نہیں۔ سب خوبانیاں راستے میں بانٹ دیں۔‘ تب مجھے احساس ہوا کہ میں ایک حساس انسان دوست کی پرورش کررہا ہوں۔‘‘
کہانی آپ نے پڑھی؟ دل پر کوئی اثر ہوا؟
برینڈن کی ہر کہانی کو لاکھوں افراد لائیک کرتے ہیں، ہزاروں کمنٹس آتے ہیں۔ اِس کہانی پر امریکا کے صدر اوباما نے بھی کمنٹ کیا ہے۔ انھوں نے برینڈن کی تعریف کی ہے اور خواہش ظاہر کی ہے، بلکہ دعا کی ہے کہ اِس ایرانی بچے میں دوسروں کی مدد کا جذبہ ہمیشہ تازہ رہے۔
ایرانی بچے کی کہانی کو ذہن میں رکھیں اور پھر 15 جولائی 2015 کو جنگ میں شائع ہونے والی 100 لفظوں کی کہانی پڑھیں۔ اُس کا عنوان ’’خون‘‘ تھا۔ دونوں کہانیاں پڑھ کر اگر کچھ سمجھ میں آئے تو مجھے بھی سمجھائیں۔
’’پھل کھانے سے خون بنتا ہے۔‘‘
میں نے اپنے بیٹے حسین کو بتایا۔ وہ مسکرا دیا۔
آج اُس کی سال گرہ ہے۔
کیک کاٹنے کے بعد میں نے اُس سے کہا کہ پھل کھاؤ۔
اُس نے میرا دل رکھنے کو ایک آم کھا لیا۔
میں نے اُسے کتابوں کا تحفہ اور پانچ سو روپے دیے۔
وہ خوش ہوگیا۔
شام کو میں بازار گیا تو کیا دیکھا،
حسین کئی بچوں کے ساتھ ایک ٹھیلے پر کھڑا تھا۔
کُوڑا چننے والے وہ بچے آم کھا رہے تھے۔
میں نے خفا ہوکر اُسے پکارا، ’’حسین!‘‘
حسین نے جلدی سے کہا،
’’پھل کھلانے سے خون بڑھتا ہے۔‘‘