تحریر : ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
اسلام علیکم بزرگو اور دوستو! میں محی الدین ابولکلام آزاد آپ سے مخاطب ہوں۔ادھر کچھ سال سے میری یاد میں میرے یوم پیدائش پر قومی یوم تعلیم کے عنوان سے ہندوستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں تقاریب کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ دنیا سے گذر جانے والے ایک خادم کے بارے میں آپ لوگوں کے جذبے کو دیکھ کر میرا دل نہیں مانا اور میں اپنے جنم دن پر آپ سے ملاقات کرنے اور آپ سے اپنا حال دل سنانے کے لئے چلا آیا۔اب تو دنیا میں کافی ترقی ہوگئی ہے۔ عظیم تر ہندوستان کافی ترقی یافتہ لگ رہا ہے۔ لوگوں کے پاس بات کرنے کے لئے سیل فون آگئے ہیں۔انٹر نیٹ نے دوریاں قربتوں میں بد ل دی ہیں۔ اونچی اونچی عمارتیں بن گئی ہیں۔ لوگوں کے پاس سفر کے لئے آرام دہ قیمتی گاڑیاں آگئی ہیں۔ اور شہر کنکریٹ کے جنگل بن گئے ہیں۔ رات کے وقت روشنیوں کو دیکھ کر دن کا سا گماں ہورہا ہے۔ مادی ترقی تو خوب ہے۔ لیکن مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ اتنی ساری مادی ترقی کے باوجود لوگوں نے اپنی تاریخ نہیں بھولی ہے۔ اور اپنے اسلاف کے کارناموں کو یاد کرتے ہوئے ان سے روشنی حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ بڑی خوش آیند بات ہے کہ لوگوں نے ہندوستان کو آزدای دلانے کے لئے جد جہد کرنے والوں اور وطن کے لیے بڑی قربانیاں دینے والوں کو نہیں بھلایا۔
میں بابائے قوم مہاتما گاندھی اورملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا دوست ابوالکلام آزاد ہوں۔ جب ملک آزادہوا تھا تو پنڈت نہرو نے مجھ سے کہا تھا کہ مولانا آپ نے تعلیم کے میدان میں نمایاں کارنامے انجام دئے ہیں۔ اس ملک کے نوجوانوں کو اچھی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے اور ملک میں معیاری تعلیم کا ڈھانچہ تیار کرنا ہے۔ اس لئے آپ اس ملک کے وزیر تعلیم کی ذمہ داری سنبھالیں۔اور تعلیم کی ترقی کے پروگرام شروع کریں ۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی پنڈت نہرو کی بات ٹال نہیں سکا۔ اور ملک کا وزیر تعلیم بن گیا۔مجھے خوشی ہے کہ ہر سال 11نومبر کو میرے یوم پیدائش کو آپ لوگ قومی یوم تعلیم منا رہے ہیں۔ اور اس ضمن میں آگے بھی جلسے اور سمینا ر کر رہے ہیں۔ اس موقع پر میں خود اپنے حالات زندگی آپ کو سناتا ہوں۔
میں ابوالکلام آزاد ہوں ۔ میرانام محی الدین احمد ہے۔ میرے والد کا نام مولانا خیر الدین اور والدہ کا نام آمنہ تھا۔ 1857ء کے حالات کے بعد میرے والد نے بلدالامین مکہ معظمہ کو نقل مقام کیا۔ میری پیدائش 11نومبر 1888ء کو مسلمانوں کے مقدس شہر مکہ معظمہ میں ہوئی۔ یہ وہ شہر ہے جہاں اللہ کا گھر خانہ کعبہ ہے۔ جس کے حج کے لئے ہر سال لاکھوں مسلمان دنیا کے چپے چپے سے یہاں آتے ہیں۔ میری تعلیم و تربیت میں میرے والدین نے اہم حصہ اد ا کیا۔ پانچ سال کی عمر میں حرم شریف میں میری بسم اللہ خوانی ہوئی۔ اس طر ح میری پڑھائی کا آغاز مقدس مقام سے ہوا۔ میرے والد مولانا خیر الدین بہت بڑے عالم تھے۔انہیں دیکھ کر میں بھی اکثر گھر پر مولانا بننے کے کھیل کھیلا کرتا تھا۔ میری والدہ نے بچپن میں مجھے اچھے اخلاق سکھائے۔ ایک دن میں نے اپنے والد کے دوست کو گندا آدمی کہا تو میری والدہ نے مجھ سے کہا کہ کسی کو گندا مت کہو ہوسکتا ہے وہ خدا کی نظر میں ہم سے اچھے ہوں۔ جب میری عمر دس سال کی ہوئی تو میں اپنے گھر والوں کے ساتھ کلکتہ ہندوستان چلا آیا۔ گھر پر والد صاحب نے مجھے تعلیم دی۔
مجھے مطالعے کا شوق تھا ہر سبق سمجھ کر پڑھتا تھا۔والد صاحب نے عربی فارسی پڑھائی۔ جب وہ بیمار ہوگئے تو انہوں نے دوسرے استاد کا انتظام کرایا۔جن سے میں نے فلسفہ’ریاضی ‘الجبرا ‘اسلامیات اور دوسرے مضامین پڑھے۔اس تعلیم و تربیت کا یہ نتیجہ نکلا کہ میں سولہ سال کی عمر میں دوسروں کو پڑھانے کے قابل بن گیا۔ مجھے جیب خرچ کے لئے جو پیسے ملتے تھے اس سے میں کتابیں خرید کر پڑھتا تھا۔ یہی وجہہ ہے کہ مجھے بچپن سے شعر کہنے اور مضامین لکھنے کا شوق ہوگیا ۔میرے ایک دوست عبدالواحد شاعر تھے۔انہوں نے میرا تخلص آزاد رکھا۔اس طرح اس وقت سے میرے نام کے ساتھ آزاد تخلص بھی شامل ہوگیا۔جب میری عمر 12سال ہوئی تو میں نے” نیرنگ عالم” کے نام سے شاعری کی کتاب ”گلدستہ ” شروع کی۔1900ء میں”المصباح”کے نام سے اخبار جاری کیا۔1902ء رسالہ” لسان الصدق” شروع کیا۔1904ء میں لاہور میں انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں تقریرکی۔ اس وقت میری عمر 16سال تھی۔ اپنے بھائی کے ساتھ عراق کا سفر کیا۔واپس آکر ” الہلال ” اور ”البلاغ” رسالے نکالے۔ جب میں نے ہوش سنبھالا تو ہندوستان میں آزادی کے حصول کی تحریک چل رہی تھی۔کانگریس بڑی پارٹی تھی جو ملک کی آزادی کی تحریک چلا رہی تھی۔ گاندھی جی کے کہنے پر مجھے کانگریس کا صدر بنایا گیا۔ میں نے اپنی تقریر میں انگریزوں سے کہہ دیا کہ جب تک ہمیں آزادی نہیں ملتی ہم انگریز فوج کی طرف سے دنیا میں ہونے والی جنگوں میں نہیں لڑیں گے۔ انگریز ہندوئوں اور مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کر رہے تھے۔
جبکہ ہندو اور مسلمان اس ملک کا اہم حصہ رہے ہیں۔ مجھے جد وجہد آزادی کے دوران اپنے ہی لوگو ں سے پریشانی اٹھانی پڑی۔ میں چاہتا تھا کہ مسلمان اسی ملک کا حصہ بنے رہیں۔ لیکن محمد علی جناح اور دوسروں نے مسلم لیگ قائم کرلی اور لاہور کے جلسے میں ہندوستان کی آزادی کے مطالبے کے ساتھ مسلمانوں کے لئے علٰحیدہ ملک پاکستان کے قیام کی تحریک شروع کی۔اس وقت انگریز ملک کے بڑے لیڈروں کو جیل میں ڈال رہے تھے۔ مجھے بھی گاندھی جی اور نہر و کے ساتھ جیل جانا پڑا۔ مجھے 6مرتبہ جیل جانا پڑا۔ آخری مرتبہ مجھے احمد نگر کی جیل میں رکھا گیا۔ ہمیں جیل میں دنیا کی کچھ خبر نہیں ہوتی تھی۔ میں جیل میں قیام کو موقع غنیمت جان کر تصنیف اور تالیف میں وقت گذارنے لگا۔ جیل میں اپنی چائے خود بنا کر پیتا تھا۔ میرے جیل میں قیام کے دوران ہی میری علیل بیوی زلیخا بیگم کا انتقال ہوگیا۔ جیل سے رہائی کے بعد آزادی کی لڑائی تیز ہوگئی۔ عبوری حکومت بنائی گئی۔ 15جنوری 1947ء کو مجھے وزیر تعلیم بنا یا گیا۔ تاکہ ہندوستان میں تعلیم کے شعبہ میں نئی تبدیلیاں لائی جا سکیں۔ میں آخری وقت تک ملک کی تقسیم کا مخالف رہا۔ لیکن کانگریس اور مسلم لیگ میں کچھ ایسے قائدین تھے جنہوں نے ملک کی تقیسم کو مان لیا۔
15اگسٹ 1947کو ہندوستان آزاد ہوا۔ لیکن ملک تقسیم ہوگیا جس کا مجھے افسوس رہا۔دلی کی جامع مسجد میں مسلمانوں سے تقریر کرتے ہوئے میں نے کہا کہ پاکستان جانے والو غور کرو یہ ہجرت نہیں فرار ہے۔ اپنے وطن کو چھوڑ کر کہاں جا رہے ہو۔ یہ ملک ہمارا ہے۔ اس ملک کے لئے ہم نے کتنی قربانیاں دی ہیں آنے والے حالات سے مت ڈرو۔ میرے حوصلہ دلانے سے بہت سے مسلمان ملک چھوڑ کر جانے سے رک گئے۔ آزادی کے بعد ملک میں بد ترین ہندو مسلم فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ جنہیں روکنے کے لئے گاندھی جی نے برت رکھا۔ میں نے انہیں یقین دلایا کہ اب اور لڑائی نہیں ہوگی۔ تب میرے ہاتھ سے شربت پی کر گاندھی جی نے برت ختم کیا۔ میری زندگی کا سب سے تکلیف دہ دن 30جنوری1948ء کا رہا۔ جب ایک درندہ صفت انسان نے ملک کو آزادی دلانے والے انسان کو اپنی درندگی کا نشانہ بنایا اور انہیں گولی مار کر شہید کردیا۔
ملک کو آزادی دلانے والے کا یہ انجام شائد ہندوستان کی تاریخ کو یہی منظور تھا۔گاندھی جی نے عدم تشدد کی لڑائی کے ذریعے جس طرح ہندوستان کو آزادی دلائی یہ ہر زمانے میں حصول مقصد کے لئے ایک پر امن طریقہ کار ہے۔ اب ہمیں ملک کو ترقی دینے کے لئے آگے کی طرف دیکھناتھا۔ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو نے اپنی قابلیت سے ہندوستان کو ترقی کی راہ پر ڈالنا شروع کیا۔پنچ سالہ منصوبو ںپر عمل آوری سے مختلف شعبوں میں ہندوستان کی ترقی ہوتی رہی۔ میں نے 22فروری1958ء تک بہ حیثیت وزیر تعلیم 11سال خدمات پیش کیں۔ 1952ء میں رام پور سے اور 1957ء میں ہریانہ کے گڑگائوں سے پارلیمنٹ کے لئے منتخب ہوا۔ میں پارلیمنٹ میں کانگریس کا ڈپٹی لیڈر اور وزیر اعظم کا مشیر رہا ۔ میں نے تعلیم کو ترقی دینے کے لئے ڈاکٹر تارا چند’ہمایوں کبیر اور ڈاکٹر غلام السیدین جیسے ماہرین تعلیم کی خدمات حاصل کیں۔ میرے دور میں بچوں کے لئے بنیادی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا۔ سکنڈری اسکول کھولے گئے۔ اساتذہ کے تقررات عمل میں لائے گئے۔ معذور بچوں کو خصوصی تعلیم دی گئی۔ ۔اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لئے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن قائم ہوا۔ آرٹس ‘سائینس او ر تکنیکی تعلیم پر توجہ دی گئی۔ اکیڈیمیاں قائم ہوئیں۔ اور ملک تعلیمی ترقی حاصل کرتا گیا۔ آج میں دیکھ رہا ہوں کہ ہندوستان میں تعلیم کے شعبہ میں کافی ترقی ہوئی اور وہ ساری دنیا میں اپنی معیاری تعلیم کے سبب پسند کیا جا رہاہے۔ خدا نے مجھ سے تصنیف اور تالیف کا کچھ کام لیا۔ ترجمان القران کے نام سے قران کی تفسیر کی ۔ 18 پاروں کا کام مجھ سے ہوا۔ میں چاہتا ہوں کہ کوئی اس کام کو پائے تکمیل تک پہونچائے۔
میں نے جیل سے جو خط حبیب الرحمٰن شیروانی کو لکھے تھے ان کی اہمیت کے پیش نظر وہ غبار خاطر کے نام سے شائع ہوئے۔ میں نے ایک کتاب INDIA WINS FREEDOMَلکھی۔ جس کے 30صفحے میری وصیت کے مطابق میرے اس دنیا سے گذرنے کے 30سال بعد 1988ء کو کھولے گئے۔ جس میں ہندوستان سے متعلق چند اہم باتیں میں نے لکھی تھیں۔ میں نے اردو زبان میں تعلیم حاصل کی اور آزادی کے بعد جب اردو پر برے حالات آئے تو میں نے اردو کو سرکاری زبان بنانے کی کوشش کی۔بہر حال یہ میری زندگی کے کچھ حالات تھے۔ یہ اس دنیا کی ایک اٹل حقیقت ہے کہ جو آتا ہے اسے جانا ضرور ہے۔ چنانچہ 22فروری 1958ء کو صبح دو بجے میں نے اس دار فانی سے ملک عدم کے لئے کوچ کیا۔ لا ل قلعہ اور جامع مسجد کے درمیان تاریخی میدان میں میری آخری آرام گاہ ہے۔ آج ملک اکیسویں صدی میں داخل ہوگیا ہے۔اور لوگ نئی زندگی سے ہم آہنگ ہونے کے تقاضوں کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے میں ہر سال میرے یوم پیدائش پر میری یاد منائی جارہی ہے تو میں نے سوچا کہ چلو چل کر لوگوں سے بات کرتے ہیں۔ میری آپ لوگوں سے یہی خواہش ہے کہ اپنے لئے تو سب جیتے ہیں ہمیں ایسے کام کرنے ہیں جن سے دوسروں کو فائدہ پہونچے۔ آج بھی ہندوستان کی تعمیر کے بہت سے کام باقی ہیں۔ یہاں فرقہ پرستی کا زہر ناسور بن کر ہندوستان کی کثرت میں وحدت کو کھا رہ اہے۔ رشوت کا بازار گرم دکھائی دے رہا ہے۔ سیاست اخلاقی قدروں سے نیچے گر گئی ہے۔ تعلیم کی ترقی کے باوجود سماجی برائیاں عام ہیں۔
آج بھی جہیز کے نام پر لڑکیاں جلائی جا رہی ہیں۔ دولت مند امیر اور غریب غریب ہوتا جارہا ہے۔ وقت کی قدر کرنا اور ڈسپلن سے زندگی گذارنا ضروری ہے۔ دنیا کی ہر فکر اور فلسفہ اپنے اندر کمی رکھتا ہے صرف اللہ کا دیا ہوا دین ہیں لوگوں کی حقیقی کامیابی کا ضامن ہے۔ مذہب اسلام کی تعلیمات قیامت تک لوگوں کی دنیا و آخرت کی بھلائی کی ضامن ہیں۔ اس لئے آپ لوگ اسلامی اقدار کو عام کرنے کی فکر کریں۔خود بھی اسلام پر چلیں اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیں۔ ابنائے وطن سے اچھے تعلقات رکھیں۔ مجھے امید ہے کہ گاندھی کے اس دیش میں عدم تشدد اور پیار و محبت کی فضا ہمیشہ قائم رہے گی۔ ہندوستان کے ہر بڑے شہر سے کئی آزاد پیدا ہونگے اور ملک کو نئی روشنی فراہم کریں گے۔ اگر آپ نے یاد کیا تو اگلے سال پھر آئوں گا۔ اور آپ کے ساتھ مل بیٹھ کر کچھ باتیں کروں گا ۔اللہ حافظ۔
دور دنیا کے مرے دم سے اندھیرا ہوجائے ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہوجائے