نوم چومسکی امریکی اشرافیہ کے شدید ترین نقادوں میں سرِفہرست ہے۔ بہت تحقیق کے بعد اس نے دریافت یہ بھی کیا کہ امریکی، اشیائے صرف کو بنانے کا دھندا بہت زیادہ آبادی والے مگر کم وسائل کے مالک چین جیسے ملکوں کے حوالے کر کے خود جدید ترین ہتھیاروں کو ایجاد اور انہیں بنانے کی وحشت میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ اسلحہ سازی کی صنعت میں سب پر بازی لے جانے کے جنون نے کھربوں میں کھیلنے والے ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی بنیاد ڈالی۔
جدید ترین اسلحے کے انبار جمع ہو جائیں تو انہیں استعمال کرنے کی بے چینی بھی لاحق ہو جاتی ہے۔ ہتھیاروں کے استعمال کےلئے مگر یہ بھی اشد ضروری ہے کہ کوئی اور ملک آپ کی سلامتی اور قومی بقاءکےلئے خطرہ بنتا نظر آئے۔ آپ کے ملک کو طاقت کے زور پر زیر نگین بنانےوالی کوئی قوت یا ملک موجود نہ ہو تو اسے ”ایجاد“ کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔
چومسکی کا امریکی میڈیا سے بنیادی گلہ یہ رہا کہ وہ امریکہ کے دشمن ایجاد کرنے کی تڑپ میں ہتھیار بنانےوالے صنعت کاروں اور انہیں استعمال کرنے کو بے چین عسکری اشرافیہ کا سہولت کار بغیر سوچے سمجھے مگر انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ بننے کو ہر وقت تیار رہتا ہے۔ کسی دوسرے ملک پر جنگ مسلط کرنے کےلئے آپ کو اپنے ملک کے لوگوں کی اکثریت کو یقین دلانا ہوتا ہے کہ وہ آپ کی ”قومی بقائ“ کےلئے خطرہ بن گیا ہے۔
رائے عامہ کی بھرپور حمایت کے بغیر کسی دوسرے ملک پر جنگ مسلط کرنا نام نہاد جمہوری ممالک کےلئے بہت زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔ ریاست ان ممالک میں عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کے آگے جواب دہ ہوتی ہے۔ ریاست کےلئے ضروری ہے کہ وہ لوگوں کو اس امر پر قائل کرے کہ تعلیم، روزگار اور صحت جیسے بنیادی امور پر فی الوقت کما حقہ سرمایہ کاری اس لئے نہیں کی جاسکتی کیونکہ وطن کا وجود خطرے میں ہے۔ اپنی بقاءکو یقینی بنانے کے بعد ہی ریاست موجودہ اور آنےوالی نسلوں کےلئے سکول اور ہسپتال وغیرہ بنانے پر توجہ دے سکتی ہے۔ رائے عامہ کو لہذا تعلیم، صحت اور روزگار سے جڑے سوالات اٹھانے کی مہلت نہیں دینا چاہیے۔
ہم میں سے بہت کم لوگوں کو یہ علم ہے کہ نوم چومسکی بنیادی طور پر ایک ماہر لسانیات ہے۔ اس کا اصل میدان اس ہنر کی مبادیات کو دریافت کرنا ہے جو صحافیوں، لکھاریوں اور دانشوروں کو چند مخصوص الفاظ کے استعمال، انہیں ادا کرنے کے لہجے اور تصاویر کی مدد سے ٹیلی ویژن پر بتائی کہانیوں کے ذریعے رائے عامہ کی توجہ ریاستی اشرافیہ کے گھڑے بیانیے تک محدود رکھنا ہے۔
صدام حسین کا عراق تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود بھی 2003ءمیں ایک کھوکھلی ریاست بن چکا تھا۔ خمینی کے انقلابی بنائے ایران پر اس نے 8 سال لمبی جنگ مسلط رکھی۔ ایرانی معیشت اسی کا بوجھ نہ سنبھال پائی۔ قم کے مدرسوں میں بنائے بیانیے نے مگر ایرانیوں کو ہمت نہیں ہارنے دی۔ لاکھوں نوجوان مناسب اسلحے اور فوجی ترتیب کے بغیر اپنے گلے میں ”جنت کی کنجیاں“ ڈالے اس جنگ کے لقمے بننے کو تیار رہے۔ عراق اور ایران 8 سالہ جنگ سے اپنی چونچ اور دُم کھو بیٹھے تو دونوں کے مابین ”جنگ بندی“ ہو گئی جو آج تک باہمی امن اور عزت و احترام کے رشتے قائم نہیں کر پائی۔
ایرانی رہنماﺅں نے اس جنگ سے فارغ ہونے کے بعد اپنی تمام تر توجہ اپنے ملک میں تعلیم اور صحت کے نظام کو بہتر بنانے پر لگا دی۔ مذہبی قدامت پرستی کے جبر کے باوجود عورتوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے روزگار کمانے کی ترغیب بھی دی گئی۔ تیل کی پیداوار سے آئی دولت کو عرب ممالک کے مقابلے میں انہوں نے نسبتاً بہتر انداز میں خلقِ خدا کی سرپرستی کےلئے استعمال کیا۔ صدام حسین مگر اس طرف توجہ دینے کو تیار نہیں ہوا۔ ایران کے ساتھ جنگ سے فارغ ہوا تو کویت پر قبضہ کر لیا۔ اس قبضے نے امریکہ کو کویت آزاد کروانے کا بہانہ فراہم کر دیا۔ کویت پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے جنون میں صدام حسین نے اپنے ملک کی رہی سہی طاقت اور قوت کا بھٹہ بھی بٹھا دیا۔ ذلت آمیز شکست کے بعد عراق کو طویل عرصے تک عالمی برادری کی لگائی پابندیوں اور اقتصادی بائیکاٹ کو بھی سہنا پڑا۔ ان کی وجہ سے 1980ءکے آغاز تک ایک بہت ہی خوش حال اور انتہائی پڑھی لکھی آبادی والا عراق نئی صدی میں داخل ہوتے ہوئے ایک پسماندہ ملک میں تبدیل ہو چکا تھا۔ یہ ملک کسی صورت بھی اپنے سے ہزاروں میل دور اور کئی سمندر پار امریکہ کےلئے خطرناک ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
سی آئی اے نے مگر طے کر دیا کہ صدام حسین ایٹمی اور کیمیاوی ہتھیار بنا کر ان کے انبار لگانے میں مصروف ہو گیا ہے۔ سی آئی اے کے گھڑے بیانیے نے بش انتظامیہ کو جو نائن الیون کے بعد افغانستان میں ایک خوفناک جنگ میں پہلے ہی مصروف تھی، عراق کو بھی وسیع تباہی کے ہتھیار سے پاک کرنے پر “مجبور“ کر دیا۔ امریکی میڈیا نے اس معاملے میں یکسو ہو کر بش انتظامیہ کا ساتھ دیا۔ وہاں کی رائے عامہ کو عراق پر جنگ مسلط کرنے پر آمادہ کرنے کےلئے جو بیانیہ تشکیل دیا اسے چومسکی نے اتفاقِ رائے بنانا کا نام دیا تھا۔ افغانستان اور ایران پر مسلط کردہ جنگوں نے امریکی معیشت کو کھربوں کا نقصان پہنچایا۔ تعلیم، روزگار اور صحت کی سہولتیں قطعی طور پر ختم تو نہیں ہوئیں مگر ان کا حصول بہت مہنگا اور کئی صورتوں میں ناممکن ہو گیا۔
ہتھیار سازی اور جدید اسلحے کو استعمال کرنے کے جنون نے بالآخر کئی امریکی ریاستوں کو رسٹ سٹیٹ میں تبدیل کردیا۔ ایسے شہر اور قصبے جہاں کئی دہائیوںسے بڑی بڑی فیکٹریوں میں 24 گھنٹے کام جاری رہتا تھا، بند ہوکر کھنڈروں میں تبدیل ہونا شروع ہو گئے۔ ٹرمپ نے درحقیقت ان شہروں اور قصبوں میں تعلیم اور روزگار سے محروم ہوئے عوام کے دلوں میں واشنگٹن میں بیٹھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اُبلتے غصے کو انتہائی ہوشیاری کے ساتھ استعمال کیا۔ اس اسٹیبلشمنٹ کے بنائے بیانیے کا محتاج امریکی میڈیا ٹرمپ کی اس قوت کو مگر سمجھ ہی نہیں پایا۔ ٹرمپ کی بدزبانی اور خواتین کے بارے میں اس کے گھٹیا روئیے پر توجہ دے کر اسے کمزور ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف رہا۔ ٹرمپ کی فتح کے بعد اسے سمجھ نہیں آرہی کہ اخبارات اور ٹیلی وژن کے ذریعے اب کیا ”سودا“ بیچا جائے۔ ٹرمپ اور اس کے حامی امریکی میڈیا کی بدولت سٹارز بنے کئی افراد کی بے بسی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ ان کی بے بسی پر رحم کھاتا کوئی نظر ہی نہیں آرہا۔
امریکی میڈیا کی بے بسی کا ذکر میں نے ذرا تفصیل و تمہید کے ساتھ صرف اس لئے کیا ہے کہ میری ناقص رائے میں محترمہ نصرت سحرعباسی کی ”توہین“ اور پانامہ- پانامہ کا وِرد کرتا ہمارا اپنا میڈیا بھی ہمارے عوام کے دلوں میں اشرافیہ کے خلاف اُبلتے غصے کی اصل وجوہات جان کر انہیں بیان کرنے کی فکر اور سکت سے محروم ہو چکا ہے۔ یہ بات شاید آپ کےلئے برداشت کرنا ممکن نہ ہو لیکن میں یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوں کہ وہ لوگ جنہیں ہم ”مذہبی انتہاءپسند“ اور ”کالعدم تنظیمیں“ کہتے ہیں عوام کے دلوں میں اُبلتے اس غصے کو خوب سمجھ کر بہت سفاکی اور ہوشیاری سے اپنے مقاصد کے حصول کےلئے استعمال کرنے کی بے پناہ قوت حاصل کرچکے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب نے ان کی عسکری قوت کو یقینا بہت زک پہنچائی ہے۔ لوگوں کے دل و دماغ مگر اب بھی ان ہی تیار کردہ بیانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہماری حکومت، سیاست دانوں اور میڈیا کے پاس اس بیانیے کا مو¿ثر ”توڑ“ ہرگز نظر نہیں آرہا۔