(اقتباس از کتاب: میں ہوں عمران خان ، مصنف : فضل حسین اعوان) عمران خان کی پیدائش اور بچپن کے حوالے سے ان کے والد اکرام اللہ خان کی تحریر ان کی سوانحی کتاب، آٹو بائیو گرافی۔ عمران خان میں شائع ہوئی۔ یہ ایک مستند تحریر ہے ۔ جس میں انتہائی سادہ الفاظ میں انہوں نے عمران خان کے بارے میں لکھا ہے۔
وہ لکھتے ہیں:یہ 25 نومبر 1952 کی بات ہے ۔ میری بیوی لیڈی ولنگٹن ہسپتال لاہور میں داخل تھی ، کافی وقت گزر چکا تھا حتٰی کہ صبح کے نو بج گئے ۔ میں نے ناشتہ نہیں کیا ہوا تھا۔ سوچا آج چل کے پوریوں کا ناشتہ کروں۔ناشتہ سے فارغ ہو کے لوٹا تو معلوم ہو ا کہ بیٹا پیدا ہو ا ہے ۔ یعنی عمران تشریف لائے تھے ۔ نام کس نے رکھا تھا ۔، یہ اچھی طرح سے یاد نہیں۔ غالباً میری بیوی نے یہ نام منتخب کیا تھا ۔ بیٹے کے خبر سے مجھے ویسے ہی مسرت احساس ہوا ، جیسا بیٹی کی پیدائش پر ہوتا ہے مجھے یہ خیا ل نہیں تھا کہ بیٹا ہی پیدا ہوا ہے ۔ میری خواہش تھی کہ جو بھی پیدا ہوخیریت سے ہو ، صحت مند ہو اور اس پر خدا کی رحمت ہو ۔ سو مجھے یہ احساس نہ آج ہے نہ پہلے کبھی ہوا کہ یہ میرا اکلوتا بیٹا ہے۔لہٰذا مجھے اس کے ساتھ خصوصی لاڈ پیار سے پیش آنا چاہیے۔دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ اس کے ناز نخرے اٹھانے کے بجائے میں نے اس کے ساتھ قدرے سختی کا رویہ اپنائے رکھا اور اپنی بیٹیوں کے ساتھ نرمی برتی۔
ایک مزے کی بات بتاتا چلوں ، جب عمران ایک سال کا ہوا تو اس کی ماں برٹ انسٹی ٹیوٹ میں منعقدہ ریڈ کراس کے میلے میں اسے لے گئی۔گول مٹول سرخ و سفید اور صحت مند عمران خان کو صحت مند بچوں میں اول انعام کا حقدار قرار دیا گیا ۔ میری بیوی نے اس انعام کے بارے میں جب مجھے بتایا تو بے ساختہ میرے منہ سے نکلا۔ اٹس اے لکی اسٹار ۔آج سوچتا ہوں کہ اس وقت میں نے ٹھیک ہی توکہا تھا ۔جب عمران میں کھیلوں کی سوجھ بوجھ پیدا ہوئی تو اسے سب سے زیادہ دلچسپی مکینو کے کھیل سے تھی ۔ وہ اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے یہ کھیل کھیلتا اور بے حد مسرت محسوس کرتا ۔ کتنی کتنی دیر اس کھیل میں مگن رہتا ۔ آہستہ آہستہ اس کی دلچسپیاں بڑھتی گئیں ۔ کرکٹ کا کھیل بھی اس کے دائرہ شوق میں داخل ہو گیا ۔ عمران ابھی چھوٹا ہی تھا کہ مجھے لندن جانے کا اتفاق ہوا۔ عمران اپنی فرمائش کے ساتھ حاضر ہو گیا۔