لاہور (اقتباس از کتاب : میں ہوں عمران خان ، مصنف : فضل حسین اعوان )عمران خان وہا ں صادق پبلک سکول میں زیر تعلیم تھا ۔ اس وقت اس کی عمر پانچ سال ہوگی ۔وہ گھر میں تھا اور میں اپنے دفتر میں ۔دفتر میں مجھے اطلاع ملی کہ عمران کا بازو ٹوٹ گیا ہے ۔اس پریشان خبر کو سن کر میں گھر کو بھاگا ،
عمران بنیادی طور پر سنجیدہ اور بردبار طبیعت کا مالک ہے ۔ اس نے بھی کبھی عامیانہ شرارتیں نہیں کی تھیں ۔ میں حیران تھا کہ یہ ہوا کیسے ۔۔۔؟یہ ایسے ہوا کہ گھر میں سب بچے سیڑھیوں سے چھلانگیں لگا رہے تھے ۔ عمران خان نے یہ منظر دیکھا تو رعب ڈالنے کیلئے بولا “سیڑھیوں سے چھلانگ لگانا کیا کمال ہے ؟اصل کمال تو چھت سے چھلانگ لگانا ہے اور میں یہ کر کے دکھاتا ہوں۔”وہ بھاگ کر چھت پر چڑھا اور آخری سیڑھی سے چھلانگ لگا دی ۔اس کام کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کا بازو ٹوٹ گیا ۔ اب بازو کا علاج شروع ہوا ۔ لیکن علاج کی رفتار تسلی بخش نہ تھی سو ہم عمران کو سی ۔ایم ۔ایچ راولپنڈی لے گئے ۔ وہا اس کا علاج شروع ہوا ۔ آہستہ آہستہ وہ روبصحت ہونا شروع ہو گیا ۔ ایک دن میں اور میری بیوی عمران خان کےپاس بیٹھے تھے۔عمران گہری نیند سویا ہوا تھا ۔ ایک نرس آئی اور اس نے سوئے ہوئے عمران کو انجکشن لگا دیا ۔انجکشن لگا کے وہ ہماری طرف مڑی اور مسکراتے ہوئے بولی “وٹ آ سویٹ چائلڈ “ابھی یہ جملہ اس نے ادا ہی کیا تھا کہ ایک زناٹے کا تھپڑ اس کے منہ پر پڑا ۔ انجکشن کی تکلیف سے سویا ہوا عمران بیدار ہو گیا تھا ۔ کوئی بھی بچہ انجکشن کو پسند نہیں کرتا۔ انجکشن پر اسے بھی شدید غصہ آیا اور اس نے انجکشن لگانے والی کو تھپڑ جڑ دیا ۔اس تھپڑ نے نرس کو غم وغصے سے بھر دیا ۔ مجھے یقین ہے اگر اس وقت میں اور میری بیوی نہ ہوتے تو یقینا وہ تھپڑ کے جواب میں کوئی مناسب قدم اٹھاتی لیکن ہماری موجودگی کے باعث وہ بے بس ہو کر رہ گئی۔