جب کوئی لڑکی اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد کسی بھی فیلڈ میں کام کرنے کےلیے جاتی ہے تو اس کےلیے یقیناً یہ آسان کام نہیں ہوتا کہ وہ مردوں کے اس معاشرے میں اپنی جگہ بنا پائے۔ عموماً خواتین کےلیے یہ سمجھا جاتا ہے کہ انہیں تو فوراً ہی جاب مل جائے گی اور انہیں جاب کےلیے اتنے پاپڑ نہیں بیلنے پڑیں گے جتنے مردوں یا لڑکوں کو بیلنے پڑتے ہیں، جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔
جب لڑکی کو کسی بھی پوسٹ کےلیے منتخب کیا جاتا ہے تو اس کی ’’پے‘‘ یعنی تنخواہ، ابتداء میں بہت کم ہوتی ہے۔ اسے دوران ملازمت محنت سے کام کرنے کے باوجود بار بار یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ اس کی پہلی ملازمت ہے، ابھی اسے اتنا تجربہ نہیں۔ چاہے بڑا ادارہ ہو یا چھوٹا، لڑکی کو اسی حصار میں رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جتنا آپ کو دیا جارہا ہے، وہی آپ کےلیے بہت ہے، اس سے زیادہ آپ کو مانگنا ہی نہیں چاہیے۔
جب ایک دو سال ملازمت کرنے کے بعد وہ لڑکی اس بات کےلیے سوچے کہ اب شاید اس کی ترقی ہوگی لیکن اس وقت سے ہی اکثر اداروں میں اس کے کام پر سوالیہ نشان اٹھایا جانے لگتا ہے اور اسے ’’مزید بہتر، مزید اچھا کرو‘‘ کی نصیحتیں کی جاتی ہیں، یہ شاید اس لیے کیا جاتا ہے کہ لڑکی کہیں اپنا حق نہ مانگ لے یا ادارے کی انتظامیہ سے اپنی ترقی کا مطالبہ نہ کردے۔
کچھ اداروں میں غیر شادی شدہ لڑکی کے سامنے مرد حضرات کی ترقیاں کی جارہی ہوتی ہیں، ان کی تنخواہیں بڑھائی جارہی ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ پوچھنے پر یہ جواب بھی سننے کو ملتا ہے کہ وہ فیملی والا ہے، اس کی ضرورتیں ہیں، لڑکیوں کی کیا ضرورت ہوتی ہے، بس کپڑے، جیولری اور دیگر چیزوں کی شاپنگ پر ہی تنخواہ اڑانی ہے۔ لڑکیوں کے بارے میں یہ نہیں سوچا جاتا کہ ان کے بھی کچھ مقاصد ہوسکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ محنت کرکے اپنے پیسوں سے کوئی پراپرٹی خریدنے کی خواہش دل میں رکھتی ہوں، کیا پتا وہ ماں باپ کو اپنے پیسوں سے حج کروانے کا سوچتی ہوں یا فیملی کو اپنے خرچے پر بیرون ملک گھومنے لے جانے کی خواہشمند ہوں۔ وجہ چاہے جو بھی ہو، لڑکیوں کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ بتدریج ان کی ترقی ہو اور ان کی تنخواہوں میں مرد حضرات کے ساتھ ہی اضافہ بھی ہو، انہیں بھی اتنا ہی بونس ملے جتنا کہ اس ادارے میں کام کرنے والے دیگر لوگوں کو ملتا ہے، لیکن اکثر ایسا نہیں ہو پاتا۔
پھر ایسی صورتحال میں اکثر لڑکیاں ملازمت چھوڑنے کا سوچنے لگتی ہیں، ان کے ذہن میں یہی آنے لگتا ہے کہ چلو اب فی الحال یہاں سے تو استعفیٰ دے دیتے ہیں، کسی دوسری جگہ اپلائی کرنا ہی بہتر رہے گا۔ ایسے وقت میں وہ گھر والوں اور دوست احباب کے سوال ’’ملازمت کیسی جارہی ہے؟‘‘ کا جواب دینے کے بجائے صرف یہی کہنے پر اکتفا کرتی ہیں: ’’میں استعفیٰ دینے کا سوچ رہی ہوں۔‘‘
اب سوال یہ ہے کہ کیا ’’میں استعفیٰ دے رہی ہوں‘‘ ہی اس مسئلے کا حل ہے، کیا کسی بھی شعبے میں کام کرنے والی لڑکی کا یہ حق نہیں کہ وہ اپنی خدمات اور صلاحیتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے ادارے سے اپنی ترقی کا مطالبہ کرے۔ ہمارے یہاں بہت سی چیزوں کے حوالے سے قوانین بنائے جاتے ہیں۔ کیا خواتین کی ملازمت اور ان کو دی جانے والی تنخواہوں کے معاملے پر کبھی کوئی قانون بنا؟ کیا اداروں کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ خواتین کے حقوق کا خیال کیا جائے، انہیں بھی ان کی صلاحیتوں کی بنیاد پر ترقی دی جائے؟ اگر قانون موجود ہے تو اس کا کسی لڑکی کو علم کیوں نہیں؟ لڑکیوں میں اپنی ترقی کے حوالے سے بنائے جانے والے قوانین کا شعور بھی دیگر قوانین کی طرح بیدار کروانا چاہیے، انہیں یہ باتیں اور قوانین پتا ہونے چاہئیں تاکہ وہ بھی اپنی ترقی کے حوالے سے آواز اٹھاسکیں۔ ان کی آواز قانون کے بل بوتے پر اتنی بلند تو ہو کہ اسے بخوبی سنا جاسکے۔