ایک پُر اعتماد طالبہ نے بڑے مہذب انداز میں مجھ سے ایسا سوال پوچھ ڈالا جس کا فوری طور پر میرے پاس کوئی جواب نہ تھا اور میں بہت مشکل میں پڑ گیا۔ طالبہ کے چہرے پر کوئی مسکراہٹ تھی اور نہ ہی شرارت۔ اس کی آنکھوں میں جستجو کے ساتھ ساتھ مجھے کچھ پریشانی بھی نظر آئی لیکن میں چند لمحے خاموش رہا۔ اپنے آپ سے پوچھ رہا تھا کہ یہ سوال میرے ذہن میں کیوں نہ آیا؟ یہ سوال کسی لڑکے نے کیوں نہ پوچھا؟ لڑکی نے یہ سوال کیوں پوچھا؟ سوال کی طرف بعد میں آتے ہیں پہلے یہ مشکل سوال پوچھنے والی لڑکی کے متعلق کچھ جان لیجئے۔ اس لڑکی کا نام زاہدہ تھا جو قائداعظمؒ یونیورسٹی اسلام آباد کی طالبہ ہے۔ کافی دن پہلے زاہدہ نے یونیورسٹی کے ایک استاد کے توسط سے رابطہ کیا اور اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ میں نے ملاقات کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ ہماری یونیورسٹی میں طلباء و طالبات کو لسانی پس منظر کی وجہ سے کئی مشکلات کا سامنا ہے، خاص طور پر ہاسٹلز میں رہنے والوں کو بلوچ، پختون، سندھی یا پھر ’’اسلامی‘‘ بن کر کوئی نہ کوئی سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے لہٰذا طلباء و طالبات کو قائداعظمؒ کے نام پر قائم یونیورسٹی میں لسانی کشیدگی سے نکالنے کا کوئی راستہ تلاش کیا جائے۔ یہ سن کر میں نے معذرت کر لی اور کہا کہ مجھے اس پھڈے میں نہ ڈالیں۔ زاہدہ نے کہا کہ کچھ سال پہلے آپ نے ہماری یونیورسٹی کے کچھ لسانی گروپوں میں صلح کروا دی تھی، ایک دفعہ پھر یہ کام کرا دیں۔ میں نے زاہدہ کو سمجھایا کہ یہ کافی سال پہلے کی بات ہے اور اس صلح میں صرف میرا نہیں بلکہ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور سندھ کے کچھ سیاستدانوں کا بھی کردار تھا۔ ان طلبہ کے ساتھ جو وعدے ہوئے، ان پر عمل درآمد نہیں کیا گیا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ عرصہ بعد حالات پھر بگڑ گئے لہٰذا ماضی کا تجربہ یہ کہتا ہے کہ ہم صحافیوں کو ایسے معاملات میں جج یا مصالحت کار نہیں بننا چاہئے جہاں اصل اختیار حکومت کے پاس ہوتا ہے، صحافی کو صرف صحافی رہنا چاہئے۔ میرا دو ٹوک موقف سن کر زاہدہ خاموش ہو گئی۔ کچھ دن پہلے زاہدہ نے پھر رابطہ کیا اور کہا کہ ہمارے کچھ سوالات ہیں جو ہم اپنی یونیورسٹی کلاس میں پوچھ سکتے ہیں نہ ہی کلاس سے باہر کسی ٹیچر کے پاس ان سوالات کا جواب ہے۔ میں نے سوالات کی نوعیت جاننے کی کوشش کی۔ یہ سوالات عورت مارچ کے بارے میں تھے۔ میں نے زاہدہ کو مشورہ دیا کہ آپ اس معاملے پر کسی خاتون سے بات کریں تو زیادہ بہتر ہو گا۔ زاہدہ نے کہا کہ آپ عاصمہ جہانگیر کے جنازے میں بھی جاتے ہیں اور مولانا سمیع الحق کے جنازے میں بھی، آپ دونوں طرف کا موقف سمجھتے ہیں اس لیے ہم نے اپنے سوال آپ ہی سے پوچھنے ہیں۔ میں نے تجویز پیش کی کہ آپ کشور ناہید صاحبہ کے پاس جائیں یا میں آپ کو ان کے پاس لے جاتا ہوں۔ زاہدہ نے کہا کہ کشور ناہید ہمارے لئے بہت قابلِ احترام ہیں لیکن عورت مارچ کرنے والی خواتین سیاسی حمایت کے لیے بلاول بھٹو زرداری کے پاس گئیں، کشور ناہید کے پاس تو نہیں گئیں لہٰذا ہم بھی اپنے سوالات کسی مرد کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔ مجھے تین دن کے لیے لاہور جانا تھا۔ میں نے مصروفیات کا عذر پیش کیا اور زاہدہ کے قابو نہ آ سکا۔ لاہور میں حبیب جالب صاحب کی یاد میں ہونے والی تقریب کے دوران مجھے کچھ بلوچ طلبہ نے گھیر لیا اور شکوہ کیا کہ آپ قائداعظمؒ یونیورسٹی میں ہمارے ساتھیوں کو صرف ایک گھنٹہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ میں بہت حیران ہوا کہ یہ بلوچ طلبہ لاہور میں کھڑے ہوکر اسلام آباد کی زاہدہ کے وکیل کیسے بن گئے؟ پتا چلا کہ زاہدہ کا تعلق اسلام آباد سے نہیں کراچی سے ہے اور وہ جس گروپ کے ساتھ مجھے ملنا چاہتی ہیں اس گروپ میں بلوچ طلبہ بھی شامل ہیں۔ اسلام آباد واپسی پر قائداعظمؒ یونیورسٹی کے ان بے چین طلبا و طالبات کے ساتھ ملاقات کا وقت طے ہو گیا۔ اتفاق سے جب یہ ملاقات شروع ہوئی تو ٹی وی اسکرین پر لاہور میں حمزہ شہباز کی گرفتاری کیلئے نیب کے چھاپے کا ڈرامہ چل رہا تھا۔ یہ ڈرامہ کافی دیر چلتا رہا۔ میں نے ٹی وی کی آواز بند کی اور زاہدہ سے درخواست کی کہ وہ اپنے ساتھیوں کا تعارف کروائے۔ زاہدہ نے بتایا کہ وہ کراچی سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے والدین علی گڑھ سے پاکستان آئے تھے اور اردو کی ایک شاعرہ زاہدہ خاتون شروانیہ کا تعلق بھی اسی خاندان سے تھا۔ زاہدہ کی ایک ساتھی کا تعلق چکوال سے تھا، ایک طالبعلم میرپور خاص سندھ، ایک طالبعلم خضدار بلوچستان، ایک کا تعلق ہنگو خیبر پختونخوا اور ایک کا تعلق گلگت سے تھا۔ یہ سب آپس میں کلاس فیلو تھے۔ دو لڑکیوں اور چار لڑکوں نے مجھے بہت سے سوالات پوچھے۔ زیادہ تر سوالات کا تعلق سیاست و معیشت کے ساتھ تھا اور یہ سوالات بتا رہے تھے کہ نئی نسل کنفیوژن سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن میڈیا اس نسل کی مدد سے قاصر ہے۔
مثال کے طور پر پختون طالب علم نے پوچھا کیا نواز شریف واقعی بہت بیمار ہیں۔ میں نے کہا:ہاں بہت بیمار ہیں۔ سندھی طالبعلم نے کہا اللہ ان کو صحت دے لیکن اگر کوئی سندھی سیاستدان بیمار ہو جائے اور علاج کے لیے عارضی رہائی مانگے تو کیا اسے رہائی ملے گی؟ بلوچ طالبعلم نے پوچھا کہ جس طرح نیب کو لاہور میں حمزہ شہباز کی گرفتاری میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اگر ایسی مزاحمت کوئی خضدار یا کوئٹہ میں کرے تو کیا ہوگا؟ میں نے ان سب سے کہا کہ قانون اور آئین کی عملداری میں کچھ رکاوٹیں ہیں لیکن ہم سب کو قانون و آئین کی بالادستی کے لیے آواز اٹھانا چاہئے۔ اور پھر زاہدہ نے وہ سوال کر ڈالا جو میرے لئے انتہائی غیر متوقع تھا۔
سوال بہت سادہ تھا۔ اس نے پوچھا حکومت کے ایک سینئر وزیر شیخ رشید احمد کافی دنوں سے بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں ذومعنی گفتگو کر رہے ہیں، سب جانتے ہیں کہ وہ کس کام سے اپنی رغبت ظاہر کر رہے ہیں لیکن کوئی عالمِ دین اور کوئی سیاستدان اس معاملے پر ان کو روکنے کے لئے تیار نہیں، کیا صرف اس لئے کہ شیخ صاحب مرد ہیں اور بلاول بھی مرد ہیں، کیا مرد کی عزت کوئی عزت نہیں ہوتی؟ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد میں نے کہا کہ شیخ صاحب کو احتیاط کرنی چاہئے اور ایسی ذومعنی گفتگو سے پرہیز کرنا چاہئے جس میں کسی برے کام کا فخریہ انداز میں اعتراف نظر آئے۔ زاہدہ کی آواز کچھ بلند ہو گئی۔ اس نے کہا وہ سب علماء کہاں مر گئے جن کی غیرت چھوٹی چھوٹی باتوں پر خطرے میں پڑ جاتی ہے؟ شیخ صاحب ایک طرف جہاد کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف بلاول کو بلو رانی قرار دیتے ہیں، کیا نئے پاکستان کی وفاقی کابینہ کا یہی اخلاقی معیار ہے؟ کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ قومِ لوط کا کیا انجام ہوا تھا؟ میں نے گفتگو کا رخ موڑا اور کہا کہ تعلیمی اداروں میں اسٹوڈنٹس یونینز بحال ہونا چاہئیں لیکن تعلیمی اداروں کو سیاسی اکھاڑے نہیں بننا چاہئے۔ زاہدہ نے تلملا کر کہا افسوس آپ کے پاس بھی ہمارے سوالوں کا جواب نہیں۔ میں نے کہا آئی ایم سوری زاہدہ یہ جواب عمران خان کو دینا ہے۔