پیاس کا میں صحرا ہوں، درد کا میں دریا ہوں
سبز سر زمینوں کا خشک سار خطہ ہوں
شاد باد باغوں کا خار زار گوشہ ہوں
کب سے ہے جو نارفتہ ایک ایسا رستہ ہوں
خواہشوں کے کھیتوں میں خواب بوتا رہتا ہوں
بے بسی کے ساحل پر سیپ چنتا رہتا ہوں
رنج کا صحیفہ ہوں حسرتوں کا بستہ ہوں
درد کے حوالوں میں معتبر حوالہ ہوں
سب سے پہلے میرا ہی اشتہار چلتا ہے
میرے نام پر جانے کون کون پلتا ہے
خیر کے اداروں کا پہلا تر نوالہ ہوں
سینکڑوں سہارے ہیں پھر بھی بے سہارا ہوں
عید جب بھی آتی ہے روگ مسکراتا ہے
زخم گنگناتے ہیں، درد رقص کرتا ہے
جسم و جاں کا ہر ٹانکا دفعتاً اکھڑتا ہے
درد سے تڑپتا ہوں، آسماں کو تکتا ہوں
آسمان سے مجھ پر روشنی اترتی ہے
ایسا لگنے لگتا ہے مجھ میں ایک دنیا ہے
میں تو ابنِ مریم ہوں، آمنہ کا جایا ہوں
تہہ بہ تہہ اندھیروں میں صبح کا اجالا ہوں
میں یتیم بچہ ہوں