لاہور (ویب ڈیسک) ہمارے معاشرے کے چند بڑے المیوں میں ایک یہ بھی ہے ہم جھوٹ بولنے کو ”گناہ کبیرہ“ سمجھنا تو دور کی بات ہے ”گناہ صغیرہ“ بلکہ معمولی سی خرابی بھی نہیں سمجھتے، جبکہ اسے گناہوں یا خرابیوں کی ماں قرار دیا گیا ہے، ہمارے ہاں جھوٹ بولنا اب باقاعدہ طورپر نامور کالم نگار توفیق بٹ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ایک ”فیشن“ بلکہ زندگی کی ایک بنیادی ضرورت سمجھا جاتا ہے، ….حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے آپ نے فرمایا ” منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بولتا ہے جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ کی خلاف ورزی کرتا ہے، اور جب اُسے امین بنایا جاتا ہے تو خیانت کرتا ہے، ….ہم جب اپنے موجودہ اور سابقہ ”فنکارحکمرانوں“ کو دیکھتے ہیں، بلکہ پورے معاشرے کو دیکھتے ہیں، میں بھی جس کا حصہ ہوں، جو ہمارے اعمال ہیں، میں یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا، ہم سب منافق ہیں۔ خصوصاً ہمارے سیاستدان ہمارے یہ وزیر شذیر، روزانہ جو بیانات جاری کرتے ہیں، ٹی وی پر بیٹھ کر جو دعوے کرتے ہیں، جو بڑھکیں لگاتے ہیں، نوے فی صد جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں، اِن کے مکروہ چہروں سے صاف ظاہر ہورہا ہوتا ہے یہ غلط بیانی کررہے ہیں، اصل معاملات یا واقعات اُس کے بالکل اُلٹ ہوتے ہیں جو وہ کہہ رہے ہوتے ہیں، اِن کے چہرے ان کے زبانوں کا ساتھ نہیں دے رہے ہوتے، نہ ان کی زبانیں اِن کے چہروں کا ساتھ دے رہی ہوتی ہیں، یہ لوگوں کو بے وقوف بنارہے ہوتے ہیں، لوگ بن بھی رہے ہوتے ہیں، اِس معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی، کوئی بہتری یا برکت اگر پیدا نہیں ہورہی تو اُس کی بنیادی وجہ ہمارے جھوٹ اور ہماری منافقت ہے جو بجائے اِس کے ”تبدیلی“ کے نعروں اور دعوﺅں کے مطابق ختم یا کم ہوتی مزید بڑھتی جارہی ہے جس کے نتیجے میں حالات بھی مزید ابتر ہوتے جارہے ہیں، جب تک یہ لعنتیں ہم اپنے اندر سے ختم نہیں کریں گے، یا معاشرے سے ختم نہیں ہوں گی ہمارے حالات ایسے ہی رہیں گے، صرف وزیراعظم عمران خان کو ہم قصوروار نہیں ٹھہرا سکتے، وہ اپنی فطرت یا اہلیت کے مطابق جو کچھ کررہے ہیں اپنی طرف سے ٹھیک کررہے ہیں، اور اِس قرآنی فرمان کے عین مطابق ہی کررہے ہیں ”جیسی قوم ہوگی ویسے حکمران اُس پر مسلط کردیئے جائیں گے“،….بحیثیت ایک قوم بلکہ بحیثیت ایک ”ہجوم“ ہم ٹھیک نہیں ہوئے ہمارے حکمران کیسے ٹھیک ہوں گے؟ ۔ ہم ہمیشہ اپنے جیسے لوگوں کو ہی منتخب کرتے ہیں، یہ بھی ایک المیہ بلکہ ہماری منافقتوں یا گناہوں کی ایک سزا ہے ہماری سیاست میں اب ایک شخص دُور دُور تک دکھائی نہیں دیتا جو خود بھی ٹھیک ہو اور ہمیں یا اِس ملک کو ٹھیک کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو، عمران خان ہماری آخری اُمید تھی۔ ہم اب بھی اِس اُمید پر قائم ہیں، میچ یقیناً ابھی ختم نہیں ہوا، مگر اب تک کی پرفارمنس کے مطابق ہماری اُمید بڑھی نہیں کم ہوئی ہے، اِس میں ”ٹیم“ کے انتخاب کا بڑا عمل دخل ہے، خان صاحب نے اپنے اِردگرد عجیب وغریب ”مسخرے“ اکٹھے کررکھے ہیں، کچھ مسخروں کو فارغ کرکے نئے مسخرے اور مسخریاں لائی گئی ہیں۔ میں ابھی سے یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں یہ خان صاحب کے خوابوں، اُمیدوں اور اُمنگوں کو مزید نقصان پہنچائیں گے۔ اور اِس کاذمہ دار کوئی اورنہیں خان صاحب خود ہوں گے۔ ہماری دعا تھی بلکہ اب بھی یہی دعا ہے ایک ”نیازی“ ملک کے لیے بدنامی کا باعث بنا تھا دوسرا نیک نامی کا باعث بن جائے۔ جِس سے پرانا داغ مکمل طورپر صاف ہوجائے، مجھے یقین ہے ایسا ہی ہوگا یہ الگ بات ہے میرے اِس یقین سے اختلاف کرنے والوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ ہمارے ہاں کوئی سچ بولنا پسند نہیں کرتا، نہ سچ سننا پسند کرتا ہے، ….اب تو ہمارے محترم وزیراعظم بھی اتنی ڈھتائی اور دلیری سے جھوٹ بول اور سُن رہے ہوتے ہیں ہمیں شرم آتی ہے، اور ہم یہ سوچتے ہیں وہ عمران خان کہاں گُم ہوگیا ہے جِس کے سامنے کوئی جھوٹ بولتا تھا تو وہ اُسے انتہائی حقارت کی نگاہ سے دیکھتا تھا، اور جب کچھ لوگ اُسے یہ ”تلقین“ یا نصیحتیں کرتے تھے کہ سیاست میں تھوڑا بہت جھوٹ بولنا پڑتا ہے تو جواباً وہ کہتا تھا ” میں لعنت بھیجتا ہوں ایسی سیاست پر جو منافقت اور جھوٹ پر مبنی ہو“ ،….افسوس اب اِس سیاست کا وہ باقاعدہ حصہ بن چکے ہیں، اور اُن کی پیروی میں اُن کی کابینہ کے اکثرارکان ایسے جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں جیسے اُنہیں یہ یقین ہو وہ اگر جھوٹ نہیں بولیں گے انہیں کابینہ سے نکال دیا جائے گا“۔….جھوٹ کے بغیر ہماری سیاست اب چل ہی نہیں سکتی، مگر اِس طرح سیاست چل سکتی ہے ملک نہیں چل سکتے، موجودہ حکمرانوں کے کسی عمل میں برکت پیدا نہیں ہورہی، حتیٰ کہ جو کام وہ نیک نیتی سے کرتے ہیں اُن میں بھی برکت پیدا نہیں ہورہی تو اُس کی وجہ اِن کی منافقت اور جھوٹ ہیں، اِن معاملات میں یہ شاید پچھلے حکمرانوں کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں ، پھر اِن کا بھی وہی حال ہوگا جو پچھلے حکمرانوں کا ہوا کہ وہ بے عزتی کے بلند ترین مقام پر جاکر کھڑے ہوگئے، …. ابھی کل ایک وفاقی وزیر ایک ٹی وی ٹاک شو میں بڑے دعوے سے یہ کہہ رہا تھا ”پی ٹی آئی میں کوئی اختلاف نہیں “، میں چونکہ پی ٹی آئی کے اندرونی حالات سے پوری طرح واقف ہوں، میرا جی چاہ رہا تھا یہ وفاقی وزیر میرے سامنے ہو اور ایک زناٹے دار تھپڑ اُس کے گال پر رسید کرکے اُس سے پوچھوں ” تم حلفاً کہہ سکتے ہو پی ٹی آئی میں کوئی دھڑے بندی یا اختلاف نہیں ہے ؟۔ ممکن ہے وہ حلفاً کہہ بھی دے کیونکہ ہمارے اکثر سیاستدانوں یا وزیروں شذیروں کا کوئی دین ایمان نہیں ہوتا، ہوتا بھی ہے تو وہ صرف پیسہ ہوتا ہے۔ میں اکثر یہ سوچتا ہوں پاکستان کی سیاست سے ذاتی ومالی مفادات نکال دیئے جائیں شاید ہی کوئی شخص سیاست میں حصہ لینے کا سوچے گا، …. یا پھر یہ ہو الیکشن لڑنے سے پہلے یا بعد میں جب یہ اپنی جائیدادوں وغیرہ کی تفصیل یا گوشوارے جمع کرواتے ہیں ایک حلف نامہ بھی اُن سے لے لیا جائے کہ ممبر اسمبلی بننے کے بعد وہ کسی معاملے میں جھوٹ نہیں بولیں گے، اور کوئی ایسا کرے گا تو اُس کی رُکنیت فوراً ختم ہوجائے گی اور وہ آئندہ الیکشن بھی نہیں لڑسکے گا…. مجھے یقین ہے ایسی صورت میں کم ازکم سیاست میں سچ کا کچھ نہ کچھ بول بالا ضرور ہوجائے گا جس کے نتیجے میں کچھ نہ کچھ بہتری بھی آجائے گی۔