لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار جاوید چوہدری تحریک انصاف کے ایک رہنما کے ساتھ بات چیت کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔وہ بولے ’’حکومت کے پاس کیا آپشن بچتے ہیں‘‘ میں نے عرض کیا ’’دو آپشن ہیں‘ آپ اپنی پرفارمنس پر توجہ دیں‘ انڈسٹری چلنے دیں‘ بے روزگاری اور منہگائی کنٹرول کریں
اور اہل پوزیشن پر اہل لوگوں کو لگائیں‘ آپ کی حالت یہ ہے صدر نے تین دن پہلے ابرار الحق کو ریڈکراس کا چیئرمین لگا دیا‘ پرانے چیئرمین ڈاکٹر سعید الٰہی ہائی کورٹ چلے گئے‘ عدالت نے صدر کا آرڈر منسوخ کر دیا۔ابرار الحق دوستوں‘ پھولوں اور مٹھائی کے ساتھ دفتر پہنچ گیا اور گارڈ نے اسے گیٹ پر روک لیا‘ آپ پلیز یہ کام اب بند کر دیں‘ حکومت جس کو چاہتی ہے اسے احسان مانی کی طرح چیئرمین لگا دیتی ہے اور پھر پوری حکومت دانتوں سے گانٹھیں کھولتی ہے اور دوسرا آپشن آپ اگر پانچ سال پورے کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے ماڈل پر جانا ہوگا‘ نواز شریف نے کے پی کے آپ‘ سندھ پیپلز پارٹی اور بلوچستان بلوچ پارٹیوں کے حوالے کر کے پانچ سال پورے کیے تھے‘ آپ بھی بلوچستان کو اوپن کر دیں‘ وہاں بے شک مولانا فضل الرحمن اپنی حکومت بنا لیں اور پنجاب شریف فیملی یا چوہدریوں کے لیے کھلا چھوڑ دیں۔یہ دونوں مل کر حکومت بنا لیں یا پھر اپنا وزیراعلیٰ لے آئیں یوں آپ کو وقت مل جائے گا ورنہ دوسری صورت میں یہ گاڑی چلتی نظر نہیں آ رہی‘ آپ بس کے نیچے ٹریکٹر‘ سوزوکی اور سائیکل کے ٹائر لگا کر زیادہ دیر تک اسے نہیں کھینچ سکیں گے‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’کیا مولانا پھر آئے گا‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا‘ مولانا خود پلان بی ہیں‘ آپ اگر خود نہ گئے تو پھر مولانا دوبارہ میدان میں آئیں گے‘ ان کے چار پلان ہیں‘ اے‘ بی‘ سی اور ڈی‘ یہ اے اور بی پلان بھگتا چکے ہیں‘ یہ سی پلان کے تحت ضلعے بند کریں گے اور یہ آخر میں ڈی پلان کے ذریعے ڈی چوک بھی آئیں گے اور وہ ساری حرکتیں بھی کریں گے جو آپ لوگوں نے 2014ء میں کی تھیں چناں چہ اِدھر یا اُدھر اب خربوزہ کٹ کر ہی رہے گا‘‘۔وہ تھوڑی دیر سوچتے رہے اور پھر بولے ’’آپ کے تجزیے کی بیس کیا ہے؟‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’صدر لنڈن بی جانسن‘ آپ اگر کمرے میں داخل ہو کر یہ اندازہ نہیں کر سکتے آپ کے ساتھ کون ہے اور مخالف کون تو پھر آپ سیاست دان نہیں ہیں اور آپ اگر کسی لیڈر کی باڈی لینگویج یا الفاظ سے اس کی پلاننگ نہیں جان پاتے تو پھر آپ صحافی نہیں ہیں اور میرا خیال ہے صحافت میرے اور سیاست آپ کے بس کی بات نہیں‘ہم دونوں کے تجزیے غلط ثابت ہو جاتے ہیں لہٰذا ہم دونوں کو اپنا اپنا کام چھوڑ دینا چاہیے‘‘ ہم دونوں نے قہقہہ لگایا اور چل پڑے۔