لاہور؛سب سے بڑا مقام شکرتویہ ہے 25جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں ایک ایسا شخص وزیراعظم بنتا ہوا دکھائی دے رہا ہے جوگزشتہ پچیس تیس برسوں سے اقتدار میں رہنے والے تقریباً تمام سیاستدانوں سے ہرلحاظ سے بہتر ہے، ایک مقام شکریہ بھی ہے 25جولائاملیکشن کا دن
مشہور کالم نگار توفیق بٹ اپنی تحریر میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔بہت سکون سے گزر گیا۔ اس دن کے حوالے سے مختلف خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا، بے شمار لوگوں کو یقین ہی نہیں آرہا تھا 25جولائی کو انتخابات ہوں گے۔ اس کے باوجود کہ چیف جسٹس آف پاکستان بار بار یہ یقین دہانی کروا رہے تھے الیکشن ایک روز کے لیے بھی ملتوی نہیں ہوں گے، سیاسی اور ملکی حالات کچھ اس قسم کے ہوتے جارہے تھے الیکشن سے کچھ روز پہلے تک اکثر لوگوں کو الیکشن کا بروقت انعقاد ناممکن دکھائی دے رہا تھا، اُوپر سے الیکشن سے عین چند روز پہلے بہت عرصے سے رُکی ہوئی دہشت گردی دوبارہ شروع ہوگئی، جس کے بعد لوگوں کا یہ یقین اور پختہ ہوگیا کچھ قوتیں الیکشن ملتوی کروانا چاہتی ہیں، کچھ حلقوں کی طرف سے یہ تاثر بھی پھیلایا جارہا تھا ”خلائی مخلوق“ بھی یہی چاہتی ہے کوئی نہ کوئی بہانہ بناکر الیکشن ملتوی کردیئے جائیں، ….2008ءکے عام انتخابات سے چند روز پہلے اُس وقت کی ایک بڑی جماعت کی سربراہ بے نظیر بھٹو کو قتل کردیا گیا تھا۔ 2013ءکے عام انتخابات سے پہلے بھی کچھ اسی قسم کے خدشات لوگوں کے دل ودماغ میں موجود تھے کہ کچھ ملک دشمن قوتیں
ایسی ہی کوئی واردات پھر نہ ڈال دیں۔ اِس قسم کے خدشات 25جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے حوالے سے بھی محسوس کیے جارہے تھے۔ مختلف ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق انتخابی مہم کے دوران کچھ اہم سیاستدانوں کو نشانہ بنایا جاسکتا تھا۔ کچھ کو بنایا بھی گیا، اس ماحول میں یہ اُمید کی جارہی تھی اہم سیاستدان گھروں میں دبک کر بیٹھ جائیں گے اور انتخابی مہم کا زوروشور برقرار نہیں رہ سکے گا۔ خصوصاً عمران خان کو ایسے ”سکیورٹی تھریٹس“ تھے زندگی موت پر اس کا ایمان مضبوط نہ ہوتا وہ بنی گالہ سے باہر ہی نہ نکلتا، اس نے کمال کردیا، ہرقسم کے سکیورٹی تھریٹس کو نظرانداز کرکے ایک ایک دن میں کئی کئی جلسے کیے، سکیورٹی خدشات کی وجہ سے ٹرن آﺅٹ کم ہونے کے امکانات بھی بڑے روشن تھے، خصوصاً کے پی کے اور بلوچستان کے حوالے سے یہ کہا جارہا تھا دہشت گردی ودیگر وجوہات کی بناءپر وہاں ٹرن آﺅٹ نہ ہونے کے برابر ہوگا۔ 25جولائی کو ایسے سارے خدشات مٹی میں مل گئے، شدید گرمی اور بارش کے باوجود لوگ جوق درجوق گھروں سے نکلے اور ووٹ دینے کا عمل قومی فریضہ کے طورپر انجام دیا جو انتہائی خوش آئند بات ہے اور اس کا ثبوت
ہے پاکستانی عوام جمہوری عمل پر پورا یقین رکھتے ہیں اور اس احساس میں مبتلا ہیں۔صرف جمہوریت ہی ان کے سارے مسئلے بخوبی حل کرسکتی ہے،…. ہم چونکہ اکثر منفی سوچتے ہیں اور منفی سوچ کو پروان چڑھانے میں آسانی بھی محسوس کرتے ہیں یہ بھی سوچا جارہا تھا یہ الیکشن بڑے خونی الیکشنہوں گے، سیاسی قتل وغارت کا بازار گرم ہوگا، بے شمار لوگ مارے جائیں گے جس سے دنیا کو پیغام ملے گا پاکستان کو جمہوریت راس ہی نہیں ہے، خونی الیکشن کا تاثر پیدا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی اس بار جن دوبڑی پارٹیوں کے درمیان مقابلہ تھا دونوں کے کارکن بڑے جذباتی تھے، خصوصاً نون لیگ کے کارکنوں کی روایت یہی ہے سیاسی مخالفین کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے میں وہ کوئی عار یا شرمندگی محسوس کرنے کے بجائے فخر محسوس کرتے ہیں۔ صرف سیاسی مخالفین کے ہی نہیں اُن کا بس چلتا اس بار بھی اپنے کارکنوں کے ذریعے سپریم کورٹ پر پتھروں اور اینٹوں کی بارش کروادیتے۔….روپے پیسے کی سیاست کو فروغ دینے کے علاوہ دوسری ”خصوصیت“ نون لیگ کی ”ماردھاڑ“ ہے۔ اس بار چونکہ اقتدار اس پارٹی کے ہاتھوں سے نکل رہا تھا لہٰذااُمید کی جارہی تھی، کچھ اطلاعات بھی یہی تھیں کارکنوں کو اُکسایا جارہا ہے جہاں
موقع ملے، موقع نہ بھی ملے موقع بناکر ماردھاڑ کی جائے، خصوصاً ایسے حلقوں میں لازماً ایسا ”فسادی ماحول“ پیدا کیا جائے جہاں سے نون لیگ کو شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو، ایک خوفناک اطلاع یہ بھی تھی جس پر یقین کرنا مشکل ہورہا تھا کہ پولنگ ڈے پر کچھ کارکن پولنگ اسٹیشنوں پر فرائض انجام دینے والے فوجی جوانوں وافسروں اور فوج کے خلاف نعرے بلند کرکے ایسے حالات پیدا کردیئے جائیں گے جس کے نتیجے میں نون لیگ کو ایک آدھی لاش مل جائے اور اِسی بہانے فوج کے خلاف زہراُگلنے کی مہم مزید تیز کردی جائے ….شکر ہے اِس طرح کا کوئی سانحہ بھی نہیں ہوا، الیکشن ڈے پر کوئٹہ میں ہونے والی دہشت گردی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصان کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے مگر اِس کے اثرات اگر اُس روز پاکستان کے دیگر شہروں پر نہیں پڑے اور پولنگ کا عمل مسلسل جاری رہا تو یہ انتہائی قابل تعریف عمل ہے جس پر ہم اپنی فوج اور پولیس کو جتنا خراج تحسین پیش کریں کم ہے ۔ میں نے سوشل میڈیا پر ایک تصویر دیکھی شاید کوئٹہ کا کوئی پولنگ اسٹیشن تھا جہاں ایک پولیس کانسٹیبل شدید زخمی ہونے
کے باوجود پوری توجہ اور لگن کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرکے افواج پاکستان کو یہ پیغام دے رہا ہے قربانیوں میں ہم آپ سے آگے نہیں تو اتنا پےچھے بھی نہیں جتنا بعض اوقات بوجوہ ہمیں کردیا جاتا ہے ،….جہاں تک الیکشنکے نتائج کا تعلق ہے میں یہ نہیں کہتا اس میں دھاندلی ہوئی ہے جیسا کہ ”فنکار شریف“ نے فوراً ہی یہ کہہ دیا، البتہ کچھ نہ کچھ ایسا ہوا ضرور ہے جس کے نتیجے میں صرف ہارنے والے نہیں جیتنے والے اُمیدوار بھی مختلف اقسام کی حیرانگیوں میں مبتلا ہیں۔ نون لیگ کے قومی اسمبلی کے ایک اُمیدوار نے خود مجھے فون کرکے کہا کہ ”میں حیران ہوں میں جیت کیسے گیا ؟؟؟“۔فنکار شریف کو چاہیے دھاندلی کا زیادہ واویلا نہ کریں ورنہ یہ نہ ہو تحقیقات کے نتیجے میں ان کی جیتی جانے والی نشستیں کم ہوجائیں، دوگھنٹے نتائج روک لیے گئے، الیکشن کمیشن نے اسے ”سافٹ ویئر“ کی خرابی قرار دیا، یہ نیت کی خرابی بھی ہوسکتی ہے جس کا زیادہ فائدہ میرے خیال میں نون لیگ کو ہوا، البتہ اس حوالے سے خوش خبری یہ ہے، اور یہ ”خوش خبری“ عمران خان جیسے بڑے ظرف والا کوئی انسان ہی دے سکتا ہے کہ اپوزیشن جس حلقے میں تحقیقات کروانا چاہے ہم اس کے لیے ہرطرح کی آسانیاں پیداکریں گے“ ….میرے خیال میں خان صاحب نے اُن کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی بات کرکے اُنہیں ”مشکل“ میں ڈال دیا ہے۔ اب سیالکوٹ کے سیاسی خواجہ آصف سرا کو چاہیے ”فنکار شریف “ کو بتائے کہ الیکشن کمیشن کی نااہلی کا کتنا فائدہ ہمیں ہوا ہے۔