دنیا بھر میں اکثر ہم ایوانوں میں پارلیمینٹیرینز کو ایک دوسرے سے جھگڑتے اور گتھم گتھا ہوتے دیکھتے ہیں، آخر حقیقی جمہوریت کا حصول آسان نہیں۔ پر کیا پاکستانی سیاست میں ہر دم بڑھتے عدم برداشت، غیر پارلیمانی زبان کا بے دریغ استعمال اور مخصوص افراد یا سیاسی جماعت کا خود کو دوسرے سے بہتر سمجھنے والی سوچ پاکستان میں حقیقی جمہوریت قائم کر سکے گی؟
اگر ایسا ہوتا تو نعیم الحق کے ایک تھپڑ سے، خواجہ آصف کی شیریں مزاری سے بد تمیزی سے اور رانا ثناء اللہ کے ہر گھٹیا بیان سے ہو جاتا۔
کاش یہ اتنا آسان ہوتا تو پاکستان کے نیلسن منڈیلا عابد شیر علی ہوتے اور مارٹن لوتھر کنگ مراد سعید ہوتے۔ پر افسوس جمہوریت میں برداشت، آزادیِ رائے اور عزت کے ساتھ اختلافِ رائے سے اپوزیشن قائم کرنا ہی ضروری سمجھا جاتا ہے۔
نعیم الحق نے اپنے ٹویٹ میں تھپڑ کی وضاحت کرتے ہوئے یہ کہا کہ ان سے برداشت نہیں ہوا جب دانیال عزیز نے ان کے لیڈر عمران خان کو بُرا بھلا کہا۔ اس سے زیادہ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ وہی لیڈر جن کا ویژن چاہے جو بھی ہو اپنے مخالفین کو اوئےکے ساتھ بہت سارے غیر اخلاقی کلمات سے نوازتے ہیں۔ عمران خان جب نئی نسل کو بڑے خواب دیکھنے کی تلقین کرتے ہیں اور حکومت میں آنے کے بعد 100 دن کا بہترین ایجنڈا بتاتے ہیں تو اپنے کارکنان کا بہتر کنڈکٹ کیا ہوگا، یہ بھی انہیں بتانا چاہئیے تھا۔
ہر پی ٹی آئی مخالف فرد کو پٹواری یا ضمیر فروش کا لقب دینے والی جماعت اور اس کے لیڈر کو یہ سمجھنا ہو گا کہ یہ اشتعال پسندی انہیں وہیں لے جا کے کھڑا کرے گی جہاں اس وقت ایم کیو ایم اپنے کئی دھڑوں کے ساتھ موجود ہے۔ آج کی اینٹ کل بندوق میں اور آج کی محرومیاں کل غنڈہ گردی میں کیسے تبدیل ہوتی ہیں یہ ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں۔ پاکستان کسی صورت انتہا پسندی کا روادار نہیں ہو سکتا، چاہے مذہب کے نام پر ہو یا تبدیلی کے نام پر۔