لاہور: معروف صحافی علی درانی کا کہنا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ مجھ سے اب شریف خاندان کی مزید غلامی نہیں ہوتی۔ سعد رفیق کہتے ہیں کہ میرا گلا ایک لمبی داستان ہے۔اور سعد رفیق کے ویسے بھی جائز نکات ہیں۔
جب ن لیگ کی حکومت تھی تو شاہد خاقان عباسی وزیراعظم بنے۔تمام رہنما اپ گریڈ ہو گئے اور میں نے کہا کہ مجھے ریلوے میں رہنے کا شوق نہیں ہے مجھے بھی کوئی اچھا محکمہ دیا جائے۔ احسن اقبال وزیر داخلہ تھے۔ مریم اورنگزیب کے پاس بھی اچھا عہدہ تھا اور مجھے مال گاڑی کے اوپر چڑھا دیا۔ اس کے باوجود میں نے الیکشن لڑے اور ایم پی اے بنا۔میں نے کہا کہ مجھے پنجاب اسمبلی میں اپوزشین لیڈر بنا دیا جائے لیکن وہ بھی حمزہ شہباز کے حصے میں آیا۔ پھر میں نے کہا کہ مجھے پارلیمانی لیڈر بنایا جائے تو وہ بھی بنایا گیا اور مجھے کہا گیا کہ ہمایوں اختر کے مقابلے پر الیکشن جیتو میں وہ بھی جیت گیا۔ پھر میں نے کہا کہ مجھے پی اے سی کا ممبر بنایا جائے اور وہ بھی نہ بنایا گیا۔ انہوں نے شہباز شریف ، نواز شریف جہاں تک کہ مریم نواز سے بھی درخواست کی تاہم ان کی نہ سنی گئی۔اس کے بعد انہوں نے تیس صدور بنائے اور مجھے آخری نمبر پر رکھا۔علی درانی کا مزید کہنا ہے کہ سعد رفیق پارٹی کو چھوڑیں گے نہیں پارٹی کے اندر ہی رہیں گے۔خیال رہے اس سے قبل ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کہ ہ پاکستان مسلم لیگ پہلے ہی دھڑے بندی کا شکار تھی جس کے بعد پارٹی کے اہم رہنماؤں نے بھی قیادت سے ناراضگی کا اظہار کر دیا ہے۔خواجہ سعد رفیق نے شریف برادران کو چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔سعد رفیق گزشتہ دو ماہ سے شریف برادرانسے سخت نالاں ہے
وہ کہتے ہیں کہ 1999ء کی طرح شریف برادران رات کے اندھیرے میں اپنا سامان لے کر بھاگ جائیں گے اور ہم جیل میں لڑتے مرتے رہیں گے مگر اب شریف برادران نے ایسا کیا تو پوری مسلم لیگ ن ان کے خلاف ہو جائے گی۔دوسری جانب سینئر صحافی ارشاد عارف کا کہنا تھا کہ سعد رفیق کو پہلی بار یہ بےچینی کیوں ہو رہی ہے ایک وقت تھا جب ن لیگ کے 36 نائب صدر تھے۔ارشاد عارف کا کہنا تھا کہ ایک بار ایسا بھی ہوا تھا جب سعد رفیق کی بنیادی رکنیت ختم کر دی گئی تھی۔سعد رفیق کو یاد ہو گا کہ پہلے انہیں پنجاب کے جنرل سیکرٹری کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا پھر پارٹی رکنیت معطل کر دی گئی تھی۔مجھے تب جاوید ہاشمی کا فون آیا انہوں نے بتایا کہ سعد رفیق کی رکنیت معطل ہونے لگی ہے اور اس کا نوٹیفیکشن جاری ہونے لگا ہے۔جس کے بعد سعد رفیق نے مرحوم مجید نظامی سے بات کی اور نظامی صاحب نے شہباز شریف کو فون کیا کہ لاہور میں صرف سعد رفیق ہی ہیں جو پارٹی کو لے کر چل رہے ہیں۔سعد رفیق نے پارٹی کے لیے بہت جدوجہد کی،سعد رفیق کو پہلے بھی استعمال کیا گیا اور اب بھی کیا جا رہا ہے،شریف خاندان صرف اپنے مفاد کے لیے سیاست کرتی ہے۔اور ہر فیصلہ خاندانی سیاست بچانے کے لیے کرتی ہے۔خیال رہے اس سے قبل ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کہ ہ پاکستان مسلم لیگ پہلے ہی دھڑے بندی کا شکار تھی