لاہور(ویب ڈیسک) (بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت ) کلچر کمیٹی سے استعفیٰ اس لئے دیا کیونکہ مجھے لگا کہ شاید میں دوسری مصروفیات کی وجہ سے اس کمیٹی کے کاموں پر اتنی توجہ نہ دے سکوں گی،ویسے بھی میں نے کلچر اور اداکاری کے شعبے کے لئے کچھ خاص کام کیا نہیں تھا اس لئے مجھے لگا کہ مجھے سوشل ورک اور
ویمن امپاورمنٹ پر زیادہ توجہ دینی چاہیے اس لئے کلچر کمیٹی کی پہلی میٹنگ میں استعفیٰ دے دیا۔یوکے میں میرے شوہر جب الیکشن لڑ رہے تھے تو اس وقت وہاں بہت ساری لابیز کام کر رہی تھیں صحافی عنبرین فاطمہ اپنے خصوصی مضمون میں لکھتی ہیں۔۔۔۔۔ جن کی کوشش تھی کہ ایک مسلمان امیدوار نہ جیتے اگر یہ پارلیمنٹ کا حصہ بن گیا تو دوسرے مسلمانو ں کے لئے راستہ کھل جائیگا ۔میں نے اپنے شوہر اور بیٹے کے لئے یوکے میں مہم چلائی ،لاہور میں122میں تو میں باقاعدہ طور پر الیکشن مہم کی انچارج بھی تھی۔ان خیالات کا اظہار گورنر پنجاب کی” اہلیہ پروین سرور“ نے” نوائے وقت“ کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا ۔انہوں نے کہا کہ میں نے یوکے میں انتخابی مہم چلا چکی تھی اس لئے مجھے اندازہ تو تھاکہ الیکشن مہم کو چلانے کے لئے کتنی انرجی اور پلاننگ کی ضرورت ہوتی ہے مجھے جب 122کی مہم کی انچارج بنایا گیا تو میں نے اس چیز کو چیلنج کے طور پر لیا کیونکہ حلقوں اور ایریاز کے بارے میں آگاہی نہ ہونا میری سب سے بڑی کمزوری تھی ۔میں نے پی ٹی آئی کی خواتین کو اکٹھا کیا اور کہا کہ ہماری ٹیم لوکل ٹیموںکے ساتھ کام کرے گی یوں ہم جس کسی کے دروازے پر بھی گئے تو ہمیں لوگوں سے بات کرنے میں آسانی ہو گئی اوراپنا نقطہ نظر بھی آسانی سے سمجھایا ۔
یوکے میں میرے شوہرچوہدری سرورجب ممبر پارلیمنٹ تھے تو اس وقت میں گھر پر فری ہی ہوا کرتی تھی تو میں نے سوچا کہ مجھے بھی کچھ کرنا چاہیے لہذا میں نے وہاں کچھ عورتوں کو اکٹھا کرکے ایک ویمن آرگنائزیشن بنائی ۔ہم کشمیر ،بوسنیا،غزا اور مساجد کے لئے فنڈ ریزنگ کیا کرتے تھے اس کے علاوہ میں نے ہمیشہ سے ہی کینسر میں مبتلا لوگوں کا دل میں بہت درد رکھا ہے اس لئے کینسر کے مریضوں کے لئے بہت فنڈ ریزنگ کی۔ ایک سوال کے جواب میںانہوں نے کہا کہ کلچر کمیٹی میں میرا نام شاید میری خدمات دیکھ کر ہی ڈالا گیا تھا انہوں نے دیکھا ہو گا کہ میں نے یوکے میں اور یہاں خاصا کام کیا ہے مجھے اچھا لگا کلچر کمیٹی میں اپنا نام لیکن میں ہمیشہ وہ کام کرتی ہوں جس کا مجھے یقین ہو کہ بہتر انداز میں کر سکتی ہوں اور میںایسی ہوں بھی نہیں کہ جس کو دو یا چار عہدوں کی خواہش ہو ،ہاں ایسی خواہش بہت سارے لوگوں میں ہوتی ہے لیکن میں ایسی خواہشات نہیں پالا کرتی میں سمجھتی ہوں کہ جس کام کو کرنے کے لئے آپ کے پاس وقت نہیں اس کے لئے آپ کو صاف کہہ دینا چاہیے کہ میری جگہ کسی اور کو یہ کام دے دیں اور ایسے بندے یا بندی کو یہ کام دیں جو بہتر انداز میں کر سکے ۔جو جس کام کا ماہر ہوتا ہے وہ کسی بھی کام میں روزانہ کی بنیادوں پر بھی نتائج دے سکتا ہے
پالیسیاں بنا سکتا ہے ۔مجھے یاد ہے کہ جب میں یوکے میں چوہدری سرور کی انتخابی مہم چلا رہی تھی تو وہاں کے میڈیا نے بہت کوشش کی یہ ثابت کرنے کی کہ بیگم سرور کو تو کچھ کرنا ہی نہیں آتا یہ صرف گھر کا کام کر سکتی ہیںیا کھانا بنا سکتی ہیں لیکن میں نے دن رات کام کیا اپنے ساتھ عورتوں کو شامل کیا ایک ٹیم بنائی اور میڈیا کی تمام باتوں کو غلط ثابت کر دیا اور میں کبھی گھبرائی بھی نہیں کیونکہ آگے بڑھنے کے لئے اعتماد شرط ہوتی ہے بہت بار ایسا ہوا کہ مجھے ایسی تقریبات میں مدعو کیا گیا جہاں میں اکیلی مسلمان عورت ہوتی تھی باقی سب گورے ہوتے تھے لیکن میں نے ڈیل کرنا سیکھا اور کبھی یہ محسوس نہیں کیا کہ میں اکیلی ہوں ۔جب ہم گورنر ہاﺅس میںآئے تو میں نے سوچا کہ ہمارے پاس نام بھی ہے اور مقام بھی تو کیوں نہ اس کا استعمال کرکے ایسے لوگوں کی زندگی سنواری جائے جو بے آسرا ہیں یا جو زندگی میںآگے بڑھنا چاہتے ہیں لیکن ان کے حالات انہیں اجازت نہیں دیتے ۔میںنے بطور بیگم گورنر لوگوں کو ملنے ،شاپنگ کرنے اور گارڈن میں گھومنے پر سوشل ورک کو ترجیح دی اور سرور فاﺅنڈیشن کے تحت چلنے والے پراجیکٹ کو آگے بڑھانے کے لئے سرگرم عمل ہو گئی ۔ایک سوال کے جواب میںان کا کہنا تھا کہ ماں چاہے یوکے کی ہو یا یہاں کی وہ چاہتی ہے کہ اس کی اولاد اچھا پڑھ لکھ جائے ،
اچھی ملازمت مل جائے اچھی جگہ شادی ہوجائے لیکن یہ سارے خواب کم ریسورسز کی وجہ سے ٹوٹ بھی جاتے ہیں ۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے گورنمنٹ کے سکولوں کے معیار کو بہترکرنے کی ضرورت ہے، یوکے میں تو ہر چھ ماہ کے بعد اساتذہ کے امتحان لئے جاتے ہیںاور دیکھا جاتا ہے کہ اساتذہ آگے بڑھ رہے ہیں یا پڑھانے کے قابل ہیں بھی یا نہیں یہاں بھی ایسا ہونا چاہیے اساتذہ کے ہر چھ ماہ کے بعد امتحان کے ساتھ ٹریننگ ہونی چاہیے تاکہ اساتذہ پڑھائی کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں۔میری چھوٹی بہو ڈینٹسٹ ہے وہ ہر سال امتحان دیتی ہے اسی طرح سے جس کے پاس جو منسٹری ہو اس کو بھی اس حوالے سے سٹڈی کرتے رہنا چاہیے تاکہ وہ بہتر نتائج دے سکے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں جب گورنر ہاﺅس میںا ٓئی تو میں نے گورنر ہاﺅس کے دروازے عام لوگوں کے لئے کھول دئیے اپنی پہلی عید دارلشفقت میںجبکہ دوسری عید بزرگوں کے ساتھ منائی مجھے لگتا ہے کہ ہمیں بڑوں کی عزت کرنی چاہیے ان کی خدمت کرنی چاہیے اور ان سے دعائیں لینی چاہیں ان کی دعائیں ہمیں بہت آگے لیجا سکتی ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ خواتین کو امپاور کرنا یہ ہمیشہ سے ہی میری ترجیحات میں رہا ہے اس کے لئے میں جتنا کام کر سکتی ہوں کیا اور کر رہی ہوں جیسے بہت ساری فیملیوں میں لڑکیوں کو پڑھا تو لیا جاتا ہے لیکن انہیں ملازمت کرنے کی اجازت نہیں ہوتی یا کہیں تو ایسا ہوتا ہے کہ لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی ایسی خواتین کوبااختیار بنانے کے لئے میں نے پنجاب کے مختلف علاقوں میں سلائی سنٹر کھولے ہیں
مجموعی طور پر اس وقت پورے پنجاب میںسلائی سنٹروں کی تعداد 150کے قریب ہے فیصل آباد میں 4ہیں ،2پیر محل میں 2ٹوبہ ٹیک سنگھ میں 4ہیں ،شاہدرہ میں 15ہیں ۔ان سلائی سنٹروں میں جو لڑکیاں سیکھتی ہیں ان کو میں باقاعدہ سرٹیفیکٹ بھی دیتی ہوں تاکہ ان کو نوکریاں ملنے میں آسانی ہو ۔ایک سلائی سنٹر بنانے میں ڈیڑ ھ لاکھ کے قریب لگتا ہے ۔ان سلائی سنٹروں میں سلائی کڑھائی کے علاوہ جیولری بھی بنتی ہے اور یہ سب سرور فاﺅنڈیشن کے زیر اہتمام ہو رہا ہے ۔یہاں بچیوں کو بغیر پیسوں کے کام سکھایا جاتا ہے اور جو بچیاں شادی کے جوڑے باہر سے نہیں لے سکتی ہیں وہ یہاں سے جوڑا لے لیتی ہیں یہیں سے جیولری پہن کر تیار ہو کر شادی ہال میں چلی جاتی ہیں ۔ایک سوال کے جواب میںان کا کہنا تھا کہ بہت ساری خواتین جب باہر کے ممالک سے خریداری کر کے آتی ہیں تو میں ان سے کہتی ہوں کہ ہمارے ہاں بننے والا کپڑا اور جیولری پوری دنیا میں پسند کی جاتی ہے ہمیں اپنے ملک کی چیزیں زیب تن کرنی چاہیں اورمیری انڈین دوستیں بھی ہیں گوریاں بھی ہیں ان کے لئے میں پاکستانی کپڑے لیکر جاتی ہوں تو وہ اس کو سوغات کے طور پر لیتی ہیں اور وہ ہر اہم تقریب پر زیب تن کرتی ہیں اور ایسے سنبھال کر رکھتی ہیں جیسے سونے کے زیورات کو سنبھال کر رکھا جاتا ہے ۔ہمیں اپنے ملک کے ہنر پر فخر کرنا چاہیے ۔میر ی سکاٹش فرینڈ ز کو یہاں کی جیولری بہت پسند ہے میں ان کے لئے جیولری اور دوپٹے لیکر جاتی ہوںوہ کہا کرتی ہیں آپ پاکستان سے ہمارے لئے جو چیز لیکر آتی ہیں ہم کسی تقریب میں پہنیں تو ہمارا موڈ اچھا ہوجاتا ہے ۔،میرے خیال سے ہمیں اپنی اکانمی کو سپورٹ کرنے کے لئے اپنی چیزوں کو پرموٹ کرنا چاہیے ۔
ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری پرورش سخت ماحول میں ہوئی میرے والد مجھے کسی کے گھر نہیں جانے دیتے تھے ہمارے گھر میری تمام دوستیں آیا کرتی تھیں اور ہمارے گھر میں کوئی مہمان آتا تو میرے والدین بہت اچھے طریقے سے مہمان نوازی کرتے ۔ہم یوکے میں چلے گئے تھے تو گرمیوں کی چھٹیاں ہونے سے پہلے ہی میرے والد سوچ لیا کرتے تھے کہ ان چھٹیوں میں پروین نے کونسا کورس کرنا ہے ۔میں نے سلائی کڑھائی ، فرسٹ ایڈ ،ہاﺅس کیپنگ ،بزنس ہر چیز کے لئے کورس کیا ۔جب میری شادی ہوئی تو میں نے اپنے دیور کے ساتھ ایک فیملی بزنس بھی چلایا اپنے شوہر کے ساتھ بھی بزنس چلایا ۔میری سرور صاحب سے صرف وقت نہ دے پانے پر ہلکی پھلکی نوک جھونک ہوا کرتی تھی وہ بہت مصروف رہا کرتے تھے ۔میرے والد بہت ہی خوددار آدمی تھے میرے شوہر بھی ایسے ہی ہیں۔شادی کے بعد ابو کے پاس گئی تو انہو ں نے کہا کہ میں تمہیں گاڑی دینا چاہتا ہوں میںنے کہا آپ نے جو زیور دیا تھا وہ لاکر میں پڑا ہے جو پیسے دئیے تھے دکان بنالی اور دوسرے ہی دن میرے ابو وفات پا گئے،شاید ان کو تسلی ہوئی کہ میری بیٹی کو کچھ نہیں چاہیے ۔ایک سوال کے جواب میںان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی منتخب اور رضاکارانہ طور پر کام کرنے والی خواتین بہت ہی ایکٹیو ہیں وہ خواتین کے لئے خاصاکام کر رہی ہیں ۔آخر میں ان کہنا تھا کہ کبھی بھی اپنی جڑوں کو نہ بھولیں ہمیشہ اپنے ماضی اور حال پر فخر کریں ۔