وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد میں نے عمران خان کی ٹیم اور ان کی کچھ پالیسیوں پر ہلکی سی تنقید کی تو صحافت میں عاجزی کے اعلیٰ ترین مقام پر کھڑے میرے محترم بھائی سہیل وڑائچ نے مجھ سے کہا
آپ کا خان صاحب کے ساتھ چوبیس برسوں پر محیط ذاتی تعلق ہے، وہ آپ کے ہردکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں، آپ کو یہ زیب نہیں دیتا ان کے اقتدار سنبھالنے کے چند روز میں ان پر تنقید شروع کردیں لہٰذا فی الحال آپ کو اپنے اندر کا ”جن“ قابو میں رکھنا چاہیے“۔میں چونکہ سہیل وڑائچ صاحب کی عزت اور ادب دل سے کرتا ہوں لہٰذا مجھے اس وقت یہ جرا¿ت نہیں ہوئی ان کے منہ پر یہ کہہ سکتا کہ بھائی جان آپ جسے تنقید سمجھ رہے ہیں وہ اصل میں ایک دوست کا وہ مخلصانہ جذبہ ہے جو اقتدار سنبھالنے والے دوست کو راہ راست پر رکھنے کے لیے ہرقسم کی مصلحتوں سے پاک ہے، اور اس قول کے عین مطابق ہے”اصل دوستی یہ ہے دوست کے بارے میں جو صحیح سمجھا جائے، چاہے اسے برا ہی کیوں نہ لگے، اسے بتایا جائے۔ یہ فریضہ میں کالموں کی صورت میں یا زبانی طورپر فی الحال اس طرح ادا نہیں کر رہا جس طرح مجھے کرنا چاہیے، البتہ جو صحیح سمجھتا ہوں واٹس ایپ پر خان صاحب کو اس خدشے کو ایک طرف رکھ کر بھیج دیتا ہوں کہ وہ اس کا برا مان جائیں گے۔
ان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد مجھے کئی اہم عہدوں کی پیشکش ہوئی۔ میں نے صرف ایک گزارش کی ”میں ان میں سے کسی عہدے کے معیار اور میرٹ پر پورا نہیں اُترتا“،….اس کے علاوہ کوئی عہدہ قبول کرنے سے اس لیے بھی معذرت کی میں یہ سمجھتا ہوں عہدوں کی بھیک وصول کرنے کے بعد میں مشورہ دینے کا نہیں صرف حکم ماننے کا پابند ہوں گا، ہمارے اکثر وزیر، مشیر آج کل یہی کررہے ہیں، خان صاحب ہرچوتھے روز کابینہ کا اجلاس بلا لیتے ہیں، یہ اچھی بات ہے۔ پر ان کی کابینہ میں شاید ہی کوئی رکن ایسا ہوگا جس میں حقائق بیان کرنے کی جرا¿ت ہو، اکثر ہاں میں ہاں اور ناں میں ناں ملانے کی نئی پالیسی کا شکار ہو چکے ہیں۔ انہوں نے عمران خان کو بھی نواز شریف اور شہباز شریف سمجھنا شروع کردیا ہے جن کے نزدیک ان کا وفادار اور مخلص ساتھی صرف وہ ہے جو ان کا غلام بن کر رہے، میں نے ایک بار لکھا تھا کہ شریف برادران نے غلام حیدر وائیں کو اپنا ”ذاتی غلام“ سمجھ کر ہی وزیراعلیٰ بنایا تھا اور وائیں صاحب نے یہ ثابت بھی کردیا تھا، جیسے اب عارف علوی یہ ثابت کررہے ہیں وہ پاکستان کے نہیں پی ٹی آئی کے صدر ہیں، اگلے روز مجھے بہت افسوس ہوا
جب خان صاحب کے اس مو¿قف کی وہ پُرزور تائید کررہے تھے کہ ” یوٹرن “ نہ لینے والا لیڈر ہی نہیں ہوتا، یہ کمزور مو¿قف وہ نہ بھی دیتے ان کی صدارت کو کوئی خطرہ نہیں تھا مگر پی ٹی آئی کے اکثر وزیروں مشیروں اور درباریوں کی طرح وہ بھی وقتاً فوقتاً خان صاحب کو یہ یقین دلانے والوں کی اگلی صف میں کھڑے ہیں کہ حضور ہم آپ کی ہرغلط بات پر آداب بجا لائیں گے، تالیاں اور ڈھول بجائیں گے، تاکہ آپ کو ہماری ”وفاداری“ پر کسی قسم کا شک نہ رہے، ….بہرحال برادر محترم سہیل وڑائچ کے حکم کے مطابق اپنے اندر کے ”جن “ کو ان دنوں قابو رکھنے کی میں پوری کوشش کررہا ہوں، میں کوشش کروں گا یہ ”جن“ خان صاحب کے اقتدار کے ”مشہور و معروف سودن“ گزرنے کے بعد بھی قابو میں رہے، سودن گزرنے والے ہیں، جس طرح لوگ اب بچے کی پیدائش سے بہت پہلے پتہ چلا لیتے ہیں کہ ماں کے پیٹ میں لڑکی ہے یا لڑکا اسی طرح کچھ لوگوں کو یہ بھی پتہ چل گیا ہے سو دنوں بعد نتیجہ کیا نکلے گا؟،ہم تو دعاگو ہیں سودنوں بعد لڑکی یا لڑکا ہی ہو، کوئی ”تیسری جنس “ ہمارے پلے نہ پڑ جائے ….ویسے سودن والی منطق پہلے ہی دن سے کم ازکم میرے پلے تو نہیں پڑی تھی۔ میرے نزدیک تیس چالیس برسوں کا گند صاف کرنے کے لیے سودن بہت کم ہیں۔
سو مہینے بھی شاید کم ہوں گے، سو مجھے یقین ہے اپنے اس مو¿قف پر بھی اپنی حالیہ شناخت کے مطابق یوٹرن لینا پڑے گا۔ اب دیکھتے ہیں سودنوں بعد پی ٹی آئی کی حکومت ایسے کون سے کارنامے اپنی ”پٹاری“ سے نکالتی ہے جو گزشتہ سودنوں میں ہماری آنکھ سے اوجھل رہے۔ البتہ ”پٹاری“ کھولتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا پڑے گا عوام اب بڑے چالاک ہو گئے ہیں اور اس کا کریڈٹ خیر سے خان صاحب کو ہی جاتا ہے، لہٰذا اب عوام فریبی اعدادوشمار ، خالی نعروں یا بڑھکوں وغیرہ کے چنگل میں پھنسنے والے نہیں، …. گو کہ یہ حقیقت اپنی جگہ بڑی مضبوط ہے نئی حکومت کو قائم ہوئے تھوڑا ہی عرصہ گزرا ہے۔ مگر عوام کو یہ خواب کسی اور نے نہیں خود خان صاحب نے دکھایا تھا کہ سودنوں بعد لوگوں کو سابق حکومتوں اور پی ٹی آئی کی حکومت میں واضح فرق محسوس ہونے لگے گا۔ فی الحال تو ہر شعبے میں معاملات زیادہ خرابی کی جانب بڑھ رہے ہیں، بیوروکریسی کو کنٹرول کرنے کے بلند وبانگ دعوے کیے گئے تھے اب ہر معاملے کو بیوروکریسی کنٹرول کررہی ہے اور خان صاحب کو سمجھ ہی نہیں آرہی ”جادو کی اس جپھی“ سے وہ کیسے نجات حاصل کریں ؟ ۔ سودنوں بعد لوگوں کو یہ کہنے
سے کوئی نہیں روک سکتا کہ اس حکومت نے اپنے کہنے کے مطابق سودنوں میں کچھ نہیں کیا تو سومہینوں میں بھی کچھ کرنے والی نہیںہے، خان صاحب نے فرمایا تھا ”پہلے چھ ماہ سخت ہیں پھر حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ اگر ان کی پہلے کہی ہوئی کوئی بات درست ثابت نہیں ہوئی تو یہ کیسے درست ثابت ہوسکتی ہے کہ ”چھ ماہ بعد حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟“کون یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہے چھ ماہ بعد اپنی اس بات سے بھی وہ یوٹرن نہیں لے لیں گے ؟“….ویسے میں یہ سوچ رہا تھا میرا یہ کالم خان صاحب نے پڑھ لیا وہ مجھ سے پوچھنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے کہ تم نے ” یوٹرن “ لینا کس سے سیکھا ہے ؟“….کل میں نے اپنے بیٹے سے پوچھا فلاں جگہ پر ہم تمہارا رشتہ طے کررہے ہیں تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ؟۔ اس نے کہا ”مجھے کوئی اعتراض نہیں “،….آج سویرے وہ کہنے لگا ”بابا میں نے وہاں شادی نہیں کرنی“…. میں نے اسے ڈانٹا کہ کل تو تم نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا “ ….وہ بولا ” میں لیڈر بننا چاہتا ہوں میں نے یوٹرن لے لیا ہے “۔…. میں ایسے ہی بیٹھا سوچ رہا تھا سودنوں بعد جب حکومت عوام کے سامنے اپنے کارنامے گنوارہی ہوگی ایک کارنامہ اس میں یہ بھی ہوگا ہم نے سودنوں میں سویوٹرن لیے…. اس حوالے سے خان صاحب شاید دنیا کے سب سے بڑے لیڈر بننا چاہتے ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک جو ”ےوٹرن“ نہیں لیتا وہ کبھی بڑا لیڈر نہیں بن سکتا، مجھے یقین ہے پی ٹی آئی کے وزیر شذیر اب خان صاحب کا موازنہ حضرت قائداعظمؒ سے کرنا بند کردیں گے۔ قائداعظم ؒ یوٹرن نہیں لیتے تھے۔
وہ خان صاحب سے بڑے لیڈر کیسے ہوسکتے ہیں ؟ ۔بہرحال ان تمام تر ”بونگیوں“ کے باوجود ہم اب بھی اس یقین میں مبتلا ہیں موجودہ حکومت کی کارکردگی سابقہ حکومتوں سے بہتر ہی ثابت ہوگی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہمارا وزیراعظم دیانتدار ہے، اب اسے یہ ثابت کرنا ہے اہلیت نہ بھی ہو بہت سے معاملات صرف دیانتداری سے ہی سدھارے جاسکتے ہیں، وہ اگر آستینوں کے سانپوں بلکہ اژدہوں سے نجات حاصل کرلیں، خوشامدیوں کو پہلے وہ قریب نہیں پھٹکنے دیتے تھے، اب ہروقت وہ ان کے آس پاس ہوتے ہیں، انہیں ایک بار پھر وہ خود سے ذرا پرے کردیں، کچھ وزیروں کی زبانیں کھینچ لیں، کچھ کو پٹہ ڈال دیں، خصوصاً اپنی ” یوٹرن “ والی سوچ یا پالیسی سے چھٹکارا حاصل کرلیں تو تیزی سے بگاڑ کی جانب بڑھتے ہوئے معاملات کی سمت خودبخود درست ہونے لگے گی، ….وہ ہماری آخری اُمید ہیں، ہم دل وجان سے ان سے محبت کرتے ہیں، وہ ہماری اس محبت کی لاج رکھ لیں، پاکستان کے عوام نے اُنہیں ٹوٹ کر چاہا ہے۔ وہ اس چاہت کی لاج رکھ لیں، ورنہ یہ نہ ہو ان کی طرح عوام کو بھی ”یوٹرن“ لینا پڑ جائے اور ہمارے سروں پر ایک بار پھر وہی چور اور ڈاکو مسلط ہو جائیں جن سے بڑی مشکل سے نجات مل رہی ہے !