اسلام وہ دین حق ہے جو دنیا کے لئے امن اور سلامتی کا پیغام لے کر آیا مگر آج دنیا اسے شدت پسندی کے ساتھ منسلک کررہی ہے اور بدقسمتی سے کچھ بھٹکے ہوئے مسلمانوں کا طرز عمل بھی اسلام کے منفی تاثر کی ایک وجہ ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کے متعلق اسلام کا کیا حکم ہے اس کا اندازہ اس تاریخی خط سے لگایا جاسکتا ہے جو 628 عیسوی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عیسائیوں کے نام لکھا گیا۔ اس مبارک خط کی ایک نقل ماؤنٹ ثنائی کی سینٹ کیتھرین خانقاہ میں محفوظ کی گئی۔اقلیتوں کے خلاف برسرپیکار افراد اور گروہوں کو ضرور دیکھنا چاہیے کہ پیغمبر خدا ﷺ نے ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا اور اپنی امت کو اس ضمن میں کیا حکم دیا۔ اس خط کا مفہوم درج ذیل ہے۔ یہ محمدﷺ ابن عبداللہ کا پیغام ہے، بطور معاہدہ، دور و نزدیک کے عیسائیوں کے نام۔ بیشک میں، میرے ساتھی اور میرے پیروکار ان کا دفاع کرتے ہیں، کیونکہ عیسائی میری رعایا ہیں اور خدا کی قسم میں انہیں ناخوش کرنے والی ہر بات کے خلاف ہوں۔ ان پر کوئی جبر نہیں۔ ان کے منصفین کو ان کے عہدوں سے ہٹایا نہیں جائے گا اور نہ ہی ان کے راہبوں کو ان کی خانقاہوں سے نکالا جائے گا۔ کوئی بھی ان کی عبادت گاہوں کو تباہ نہیں کرے گا، نقصان نہیں پہنچائے گا، اور نہ ہی یہاں سے کوئی چیز اٹھا لے جائے گا۔ ان میں سے کسی بھی اقدام کا مرتکب ہونے والا خدا کے معاہدے کو توڑے گا اور اس کے پیغمبر کی نافرمانی کرے گا۔ بے شک یہ میرے اتحادی ہیں اور میری نصرت رکھتے ہیں ان باتوں کے خلاف جو انہیں ناخوش کریں۔ انہیں سفر یا جنگ پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ ان کی جگہ مسلمان لڑیں گے۔ اگر کوئی مسلمان کسی عیسائی خاتون سے عقد کرنا چاہے تو یہ خاتون کی اجازت کے بغیر ناہوگا۔ اسے اپنی عبادت گاہ میں جاکر عبادت کرنے سے روکا نہیں جائے گا۔ ان کی عبادت گاہوں کا احترام کیا جائے گا۔ میرا کوئی بھی امتی روز قیامت تک اس معاہدے کی خلاف ورزی نہ کرے۔ پیغمبر آخر زماں ﷺ کے ان مبارک الفاظ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بنی نوع انسان کو امن کا پیغام دینا اور خصوصاً اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرنا نہ صرف ہر مسلمان کا شعار ہے بلکہ یہ اس پر فرض کر دیا گیا ہے۔