آزادی کی قدر تب تک پتہ نہیں چلتی جب تک انسان قید کے مرحلے سے نہ گزرے اور بالکل اس طرح صحت و تندرستی کی قدرو قیمت یا اہمیت کا صحیح اندازہ اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک بندہ کسی بیماری کا شکار ہو کر تکلیف کے عالم سے نہ گزرے۔جس طرح ایک قیدی کو دنیا کی سب سے بڑی نعمت آزادی ہی نظر آتی ہے اس طرح بستر پر پڑے بیمار شخص کے نزدیک سب سے اہم شےء یا سب سے بڑی نعمت صحت ہی ہوتی ہے۔خواہ وہ مال و دولت کے معاملے میں کتنا ہی لالچی کیوں نہ ہو لیکن وہ سب سے پہلے اپنی صحت یابی کو ہی ترجیح دے گا۔اس میں شک بھی کوئی نہیں کہ تندرستی ہزار نعمت ہے۔لیکن ہم تو نعمت یا رحمت کو ہمیشہ د نیاوی مال ودولت سے ہی منسوب کر دیتے ہیں اور شائداپنی ذندگی میں صرف مال و دولت کو ہی دنیا کی سب سے بڑی نعمت اور اللہ کی رحمت سمجھتے ہیں کیونکہ ایک عام مشاہدہ کہجب بھی ہم میں سے کسی کی کمیٹی یا پرائزبانڈ نکل آئے ، یا کسی طرف سے جائیداد یا پیسوں کا حصول ممکن ہو جائے تو ہم کہتے ہیں کہ ہم پر اللہ کے فضل سے بڑی رحمت ہو گئی ہے۔کیونکہ ہمار ے نزدیک تومالی حصول ہی اصل نعمت ہے۔لیکن انسان کبھی ذرا سا غور و خوض کرے تو اسے پتہ چلے گا کہ صحت والی ذندگی بھی انسان کے لئے کتنی بڑی نعمت خداوندی ہے ۔ صحت تو روپے پیسے اور سونے چاندی سے بھی ذیادہ قیمتی دولت ہے بلکہ یوں بھی کہہ لیں کہ انسان کے پاس سب سے بڑی دولت صحت ہی ہوتی ہے او ر بڑا خوش قسمت ہے وہ انسان جو تندرست اور صحت مند ہے۔صحت کا عالمی دن ہر سال 07 اپریل کو عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔جس کا اہم مقصد لوگوں میں اپنی صحت کا خاص خیال رکھنے بارے اور ذندگی میں صحت کی اہمیت بارے شعور اجاگر کرنا شامل ہے۔ صحت کا عالمی دن پہلی مرتبہ 1950ء میں منایا گیا تھا۔اس سال یعنی 2016ء میں یہ دن “Beat Diabetes”کے تھیم کے ساتھ منایا جائے گا۔ جس کے تحت ذیابطیس جیسے خطرناک مرض سے بچنے بارے لوگوں کو آگاہ کیا جائے گا۔ 2012 ء میں 15 لاکھ افراد کی اموات کا سبب صرف ذیابطیس تھا جن میں 80 فیصد لوگوں کا تعلق کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک سے تھا ۔ ‘ WHO’ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2030 ء لوگوں کی اموات کی ساتویں بڑی وجہ ’ ذیابطیس‘ ہو گی ۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق بھی پاکستان میں جہاں صحت عامہ کی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے وہیں طب کی تعلیم فراہم کرنے والے اداروں کا معیار بھی تشویش کا باعث ہے۔ اچھی صحت کا ذیادہ انحصار اچھے ماحول اور اچھی غذاء پر ہوتا ہے۔صحت مند ہونے کا مطلب یہ بھی نہیں کہ انسان جسمانی طور پر موٹا تازہ ہوجائے بلکہ ایک دبلا پتلا انسان بھی تندرست اور صحت مند ہوسکتا ہے۔صحت کی اہمیت جاننی ہو تو ان لوگوں سے پوچھیں جو گھروں یا ہسپتالوں میں علالت کی وجہ سے عرصہ دراز سے بستروں پر بے بس پڑے ہیں اور بڑی شدت سے اس وقت کے انتظار میں ہیں کہ جب ان پربھی صحت یابی مہربان ہو گی۔ذہنی اور جسمانی صحت اچھی ہو تو انسان روزمرہ کے کام آسانی سے اور بہترین طریقے سے کر سکتا ہے۔ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ اگر کسی کے کمپیوٹر میں کوئی خطرناک وائرس آجائے تو بھلا اس بندے نے کتنا ہی مہنگااور بہترین سسٹم کیوں نہ تیا ر کروایا ہو اور انٹرنیٹ کا ہائی سپیڈ کنکشن ہی کیوں نہ لیا ہو لیکن وہ وائرس اس کمپیوٹر کے نظام اور کارکردگی کو بری طرح متاثر کر دیتا ہے۔اس طرح اب بیماریاں بھی جراثیموں سے پھیلتی ہیں اور جراثیم جب انسان کے جسم میں داخل ہوتے ہیں تو وہ بھی اس کی صحت کو متاثر کر دیتے ہیں۔انسان کو بیماریاں لگنے کی چند وجوہات جو میرے ذہن میں آئی ہیں وہ یہ کہ کچھ تو موسمی تبدیلی کی وجہ سے لگتی ہیں ، کچھ ٹینشن وغیرہ وجہ سے، نیند کی کمی کی وجہ سے، کچھ موروثی طور پر، کچھ اچھوت یعنی کسی متاثرہ شخص کے ساتھ ملنے سے،آلودہ ماحول اور آلودہ پانی کی وجہ سے، غیر معیاری غذاووءں کی وجہ سے، ضرورت سے کم یا ذیادہ آرام کرنے اور ورزش وغیر ہ بالکل بھی نہ کرنے کی وجہ سے لگتی ہیں۔متوازن غذ ا، بھرپور نیند اورروذانہ ہلکی پھلکی ورزش انسان کی صحت مند ذندگی کے لئے سب سے ذیادہ ضروری چیزیں ہیں۔لیکن آج کے دور میں تو دیر سے سونا ایک فیشن بنتا جا رہا ہے۔جلدی سونے والے کو تو لوگ پسماندہ سوچ کا حامل اور دقیانوسی کا مارا ہوا تصور کرتے ہیں۔ صرف دیر سے سونے کی وجہ سے ہم میں سے اکثریت نیند پوری نہیں کر پاتی۔ماہرین کے مطابق کم ازکم چھ سے آٹھ گھنٹے کی نیند انسان کوتازگی ،سکون اور صحت بخشتی ہے۔جبکہ نیند کی کمی نہ صرف انسان کی ذہنی صلاحیتوں کو متاثر کرتی ہے بلکہ اس میں چڑچڑاپن بھی پیدا کر دیتی ہے۔جلد سونے اور جلد اٹھنے کی عادت انسان کو صحت مند ،دولتمند اور عقل مند بھی بنا دیتی ہے کیونکہ بھرپور نیند ہمارے جسم کو ،دماغ کو اور حتیٰ کہ روح کو بھی ایک نئی تازگی بخشتی ہے۔ایک تحقیق کے مطابق جوانی کی بھرپور نیند صحت مند بڑھاپے کی ضامن ہوتی ہے۔اب غذا کی بات کی جائے تو ایک اچھی خوراک انسان کے لئے ایک بہترین دوا بھی ہے لیکن یہی غذا اگر غیر معیاری ہو تو وہ انسان کے لئے کسی ذہر سے کم نہیں رہ جاتی جیسا کہ پاکستان میں لوگ گلے سڑے پھل وسبزیاں بڑے آرام و مزے سے نوش فرما لیتے ہیں۔ انسان کو ا یسی چیزیں ہرگز نہیں کھانی چاہیے کیونکہ ایک امریکی تحقیق کے مطابق گلے سڑ ے پھل و سبزیاں انسانی جسم میں کینسر کا سبب بنتے ہیں۔ایک اور عام مشاہدہ کہ ذیادہ تر لوگ پھلوں کو کھانے سے پہلے اچھی طرح دھوتے بھی نہیں ۔ کچھ تو انہیں صاف کرنے کی زحمت کرلیتے ہیں لیکن ذیادہ تر تو ویسے ہی ہڑپ کرجاتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان پھلوں سبزیوں پر کیڑے مار ادویات اور دیگر خطرناک کیمیکلز کا سپرے بھی کیا جاتا ہے۔ اس لئے ہمیشہ پھل یا سبزیاں وغیرہ خوب اچھی طرح سے دھو کر کھائیں۔متوازن غذا کھائیں اور کوشیش کریں کہ جب بھوک لگے تب ہی کھائیں ۔خوب پیٹ کر کھانے سے احتیاط کریں کیونکہ کم خوری تو انسانی صحت کو فائدہ دے سکتی ہے لیکن ضرورت سے زائد خوراک ہمیشہ نقصان ہی پہنچاتی ہے۔اس لئے تو فاقہ کو ایک طبی تدبیر اور انسانی صحت کے لئے ضروری شےء بھی کہا جاتا ہے اور روذہ اس کی بہترین مثال ہے۔پاکستان میں پانی کی آلودگی بھی ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے اس لئے ہمیشہ کوشیش کریں کہ پانی ابال کر ہی پیئے اور کھانا کھانے کے فورا بعد کبھی بھی پانی نہ پئیں ورنہ آنتوں کے کینسر کے علاوہ انسان دیگر خطرناک بیماریوں کا شکار ہو سکتا ہے۔ صبح اٹھ کر نہار منہ پانی پینا انسان کو ہزاروں بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ صحت مند رہنے کے لئے روذانہ تھوڑا بہت پیدل چلیں اور ورزش کو اپنا معمول بنائیں۔ہم ہسپتالوں کے چکر لگانے اور ڈاکٹروں کی بھاری فیسیں ادا کرنا تو برداشت کر لیتے ہیں لیکن اپنی صحت کے معاملے میں ہلکی پھلکی سی بھی احتیاط نہیں برتتے۔ مرغن غذاوءں سے پرہیز کریں۔ اس ملک میں صحت اور کھانے کے معیا ر کی کیا سطح ہو گی جہاں انسانوں کو کتوں اور گدھوں کا گوشت کھلا دیا جاتا ہے۔حفظانِ صحت کے اصولوں کی نفی سر عام نظر آتی ہے۔اور ہمارے ملک میں صحت کے معیار کی کیا توقع کی جا سکتی ہے جہاں غیر معیاری غذا اور جعلی ادویات کی بھر مار ہو اور پھر اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ بھی بڑی آسانی سے فروخت ہورہی ہوں۔ محکمہ صحت جس کا کام انسانی جانوں کی حفاظت کرنا اور بیماریوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنا ہے یہ سب اس ادارے کی ناقص کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔انسانی صحت اور انسانی جانوں سے کھیلنے والے یہ درندے عبرتناک سزا کے مستحق ہیں۔اور آخر میںیہ کہ آج بیماریوں کی بھر مار والے اس دور میں ایک غریب کے پاس اگر صحت و تندرستی جیسی دولت ہے تو وہ خود کو غریب کبھی نہ کہے نہ ہی سمجھے بلکہ وہ تو دنیا میں بڑا خوش قسمت انسان ہے کیونکہ بہت سے دولتمند ایسے بھی ہیں جنہیں دولت کے باوجو د بھی صحت نصیب نہیں ہوتی۔اس لئے دعا ہے کہ اللہ ہم سب پر صحت جیسی نعمت عطا کئے رکھے اور اللہ ہمیں آبرو سے رکھے اور تندرست۔ آمین۔