لاہور (ویب ڈیسک) لاہور کو پاکستان کا دل کہا جاتا ہے۔ آج کل یہ دل بہت تیزی کے ساتھ دھڑک رہا ہے۔ جب لاہور کی دھڑکن تیز ہوتی ہے تو اس کا اثر پورے پاکستان پر پڑتا ہے۔ لاہور آنا جانا ہوتا رہتا ہے لیکن گزشتہ ہفتے لاہور میں دو ایسے اجتماعات میں شرکت کا موقع ملانامور کالم نگار حامد میر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔جہاں پاکستان بھر سے لوگ آئے ہوئے تھے۔ پہلا اجتماع حضرت داتا گنج بخش ؒ کا سالانہ عرس تھا جہاں اس عظیم صوفی بزرگ کے مزار سے متصل مسجد میں ایک انٹرنیشنل سیمینار تھا۔ سالِ گزشتہ بھی اس خاکسار کو یہاں منعقدہ سیمینار میں اظہار خیال کا موقع ملا تھا۔ اس سال بھی یہ سعادت حاصل ہوئی۔ اس مرتبہ میں نے اپنی گفتگو کو حضرت داتا گنج بخش ؒ کے ساتھ علامہ اقبالؒ کے قلبی لگائو اور اُن کی تصنیف ’’کشف المحجوب‘‘ تک محدود رکھا۔ ’’کشف المحجوب‘‘ میں قرآن و حدیث کی تعلیمات کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ جس طرح حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر غرباء و مساکین میں دن رات مفت لنگر تقسیم ہوتا ہے اسی طرح اُن کی تصنیف ’’کشف المحجوب‘‘ میں ہماری روح کے لئے لنگر موجود ہے۔ اس کتاب پر گفتگو کے بعد مجھے ڈاکٹر طاہر رضا بخاری، پیر ضیاء الحق نقشبندی، عارف سیالوی اور کچھ دیگر علماء کے ساتھ حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر فاتحہ خوانی کا موقع ملا۔ عرس کے دنوں میں مزار تک پہنچنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن کوشش کریں تو ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے۔ اس کوشش کے دوران پاکستان کے کونے کونے سے آئے ہوئے لوگوں سے مصافحہ بھی ہوا، مکالمہ بھی ہوا، کسی نے کان میں سرگوشی کی تو کسی نے نعرہ لگا دیا اور بہت سے دعائیں بھی دے رہے تھے۔ اس مرتبہ عرس میں نوجوان بہت بڑی تعداد میں نظر آئے اور زیادہ تر نوجوان بےچین تھے۔ پچھلے سال کی نسبت اس سال مجھے عرس میں شریک لوگ زیادہ پریشان نظر آئےاور ان کے لہجوں میں تلخی بھی زیادہ تھی۔
یہاں سے فارغ ہوا تو پتا چلا کہ مولانا فضل الرحمٰن لاہور میں ہیں اور شہباز شریف نے اُن کے ساتھ کھڑے ہو کر آزادی مارچ میں شرکت کا اعلان کر دیا ہے۔ لاہور کے کچھ صحافیوں کے لئے یہ بہت بڑی پیش رفت تھی لیکن میرے لئے یہ کوئی سرپرائز نہیں تھا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ شہباز شریف وہی کریں گے جو نواز شریف کا آخری فیصلہ ہوگا۔ کچھ پرانے دوست پوچھنے لگے کہ اگر مولانا فضل الرحمٰن کو گرفتار کر لیا گیا تو پھر کیا ہوگا؟ میرے پاس اس سوال کا جواب تو موجود تھا لیکن میں نے تجویز پیش کی کہ یہ سوال آپ بنفس نفیس مولانا صاحب کو خود پوچھ لیں تو زیادہ بہتر ہے۔ دوست مان گئے لہٰذا ہم وحدت کالونی میں اپنے پرانے مہربان ریاض درانی صاحب کے ہاں جا پہنچے جہاں مولانا ٹھہرے ہوئے تھے۔ جب مولانا سے پوچھا گیا کہ اگر آپ کو گرفتار کر لیا گیا تو پھر کیا ہوگا؟ مولانا مسکرائے اور کہا کہ پھر ہمارا احتجاج پورے پاکستان میں پھیل جائے گا اور ہم کم از کم پاکستان کی اٹھارہ اہم شاہراہیں بند کر دیں گے۔ مولانا کی اس حکمت عملی سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن شکر ہے کہ اُنہوں نے عمران خان کی طرح سول نافرمانی کا اعلان نہیں کیا۔ مولانا سے یہ بھی پوچھا گیا کہ آپ اپنا آزادی مارچ کہاں سے شروع کریں گے؟ اُنہوں نے مسکرا کر ٹال دیا۔ کچھ معاملات ابھی تک خفیہ ہیں۔ لاڑکانہ کے ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی کی شکست پر بات ہوئی تو اُنہوں نے کہا کہ گھوٹکی کے ضمنی الیکشن میںپیپلز پارٹی نے ہم سے حمایت مانگی تھی ہم نے حمایت کا اعلان کر دیا اور وہ جی ڈی اے کی نشست جیت گئے۔ لاڑکانہ میں وہ ہم سے حمایت مانگتے تو ہم دے دیتے لیکن اُنہوں نے نہیں مانگی۔ مولانا سے پوچھا گیا کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات ہوں گے یا نہیں؟ وہ مسکرائے اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگے جن سے مذاکرات ہونا تھے ہو چکے اب عمران خان کو این آر او نہیں ملے گا۔ اس گپ شپ کے بعد مولانا صاحب اسلام آباد روانہ ہو گئے۔اگلے دن صبح شہباز شریف صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ مولانا کے ساتھ ہونے والی بات چیت سے بہت مطمئن تھے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ شہباز شریف نے بھی اپنے بھائی نواز شریف کو ایک تفصیلی خط لکھا ہے اور اس خط میں اُن پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ یہاں سے میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں پہنچا جہاں آزادیٔ صحافت کے متعلق ایک سیشن میں مجھے شرکت کرنا تھی۔ یہ کانفرنس سے زیادہ ایک میلہ لگ رہا تھا۔ جہاں سینکڑوں لوگ آ رہے تھے اور سینکڑوں جا رہے تھے۔ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ججوں کے علاوہ ملک بھر سے آئے ہوئے وکلاء، سیاستدانوں، ٹریڈ یونین لیڈروں، صحافیوں اور طلبا و طالبات نے کانفرنس کے مرکزی ہال کو ایک منی پاکستان بنا دیا تھا۔ اس کانفرنس میں صرف اپوزیشن جماعتوں کے نہیں بلکہ حکومت کے نمائندے بھی شریک تھے۔دوپہر کے کھانے کا وقفہ ہوا تو نوجوان وکلاء اور طلباو طالبات نے کچھ سینئر ججوں سے سوالات شروع کر دیئے۔ مجھے بھی طرح طرح کے سوالات کا سامنا تھا۔ سوالات کرنے والوں کالب و لہجہ بتا رہا تھا کہ اُن کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو رہی ہیں۔
کوئی پوچھ رہا تھا کہ سنا ہے مولانا فضل الرحمٰن کو مارشل لاء کی دھمکی دے کر آزادی مارچ سے روکا جا رہا ہے؟ کوئی پوچھ رہا تھا کہ سسٹم رول بیک ہو گیا تو کیا ہوگا؟ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے کچھ وکلاء نے مجھے کہا کہ میڈیا سچ بولنے سے قاصر ہے آپ لوگ صرف اپنی نوکریاں بچا رہے ہیں آپ کی ساکھ تباہ ہو رہی ہے آپ لوگ قومی مفاد کے نام پر جتنا بھی جھوٹ بول لیں لیکن آپ کو حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ نہیں ملے گا اور مارشل لاء لگ گیا تو آپ جیل ضرور جائیں گے۔ اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا ایک سینئر وکیل خاتون نے ان نوجوان وکلاء کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ خبردار ہمیں مارشل لاء سے مت ڈرائو ہم مارشل لائوں سے لڑنا جانتے ہیں، کہاں گیا وہ پرویز مشرف جس نے 2007میں آئین معطل کیا تھا؟ وہ آج کل ایک مفرور ہے کیونکہ کوئی عدالت اُس کی مدد نہیں کر سکتی، اٹھارہویں ترمیم کے بعد آئین کی دفعہ چھ میں یہ اضافہ کیا گیا کہ جو بھی آئین توڑنے والے کی معاونت کرے گا وہ بھی غدار تصور ہوگا اور کوئی سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ آئین سے غداری کے اقدام کو درست قرار نہیں دے سکے گی۔ خاتون وکیل نے کہا اگر کسی بے وقوف نے دوبارہ مارشل لاء سے ڈرایا اور مجھے اُس کا نام پتا چل گیا تو مجھ سے بُرا کوئی نہ ہوگا، میں اُس کے خلاف قانونی کارروائی کروں گی۔ میں نے خاتون کا شکریہ ادا کیا اور نوجوان وکلاء کا حصار توڑ کر نکل گیا۔ میرے دل کی دھڑکنیں بھی تیز ہو چکی تھیں اور مجھے کہہ رہی تھیں کہ دعا کرو وہ دن نہ آئے جب عمران خان یو ٹرن لے کر مولانا فضل الرحمٰن کے ٹرک پر چڑھا نظر آئے اور ظلم کے ضابطوں کے خلاف نعرے لگا رہا ہو۔