لاہور ; نہ آنکھ سے اشک رواں ،نہ ہونٹوں اور ہاتھوں پر لرزہ ،نہ سینہ کوبی ،یہ کیسی ماں ہے جو ارض مقدس پر قربان ہونے والے اپنے شیر جواں بیٹے کیپٹن بلال ظفر کی شہادت پر سینہ پھیلا ئے فخر و انبساط کا اظہار کررہی ہے۔اسے دیکھ کر قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی مائیں یاد آجاتی ہیں۔
وہ شیر کا جگر لئے اپنے بیٹے کی شہادت کا ماجرہ سنارہی ہے اور ساری محفل سوگواری اور ہچکیوں کے ساتھ بوڑھی ماں کے منہ سے اپنے بیٹے کی شہادت کا وعظ سن رہی ہے۔میرا کلیجہ خود دھڑک رہا ہے،دل ہچکیاں کھا رہا ہے اور آنسو ہیں کہ بے اختیار ابلنے کو بے تاب ہیں ۔جس نے بھی اس روز سکرین پر ایسی بہادر ماں کو دیکھا ہوگا اسکے ہاتھ بے اختیار دعا کے لئے اٹھے ہوں کہ یاالٰہی ہمیں بھی ایسی حوصلہ مند مائیں عطا فرما ۔ ایسی حوصلہ مند مائیں جس قوم کے پاس ہوتی ہیں اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ ۔۔۔۔۔۔اور پھر ماں جی جس خاندان کی بہو ہیں وہ عظیم حسب نسب رکھنے والے بیٹے کی شہادت کا ماتم کربھی نہیں سکتیں ۔ان کا شہید بیٹا ایک شہید کا وارث تھا ،اس وارث کا جس کو اپنی تاریخ کا ایک بڑا ایوارڈ دیا گیا تھا ۔جس کا دادا پڑدادا کشمیر اور عالمی جنگ اوّل میں اگلے مورچوں میں لڑچکا ہو،انکی اگلی نسل کا جوان کیسے پیچھے رہ سکتا تھا ۔ستائیس سالہ کیپٹن بلال ظفر نے دو فروری 1982 کو راولپنڈی میں آنکھ کھولی تو گھر میں عسکری لوریاں لیکر جوان ہوا،ابتدائی تعلیم راولپنڈی کے سکول سینٹ پاول کیمبرج سے حاصل کرنے کے بعد
گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔2001ء میں فوج جوائن کرلی اور 42 بلوچ رجمنٹ کی کلغی سجا کر ہر میدان میں اپنی شجاعت کا نشان چھوڑ دیا ۔اس نے کمانڈوز کی تربیت پانے کے بعد آپریشن المیزان، اقوام متحدہ کے امن مشن اور آپریشن راہ راست میں داد شجاعت دی۔اسے شہادت کی خواہش تھی جو 17 مئی 2009ء کو سوات میں آپریشن جانباز کے دوران پوری ہوئی ۔کیپٹن بلال ظفر شہید کی رگوں میں نسل در نسل عسکریت موجود تھی ۔اس کے والد کیپٹن ظفر تجمل فوج میں خدمات انجام دے چکے تھے جبکہ دادا کرنل تجمل حسین نے برٹش انڈین آرمی میں اپنی شجاعت کی دھاک بیٹھا دی تھی۔انہوں نے جنگ عظیم دوئم میں حصہ لیا اور جنگی قیدی بنائے گئے۔قیام پاکستان کے بعد کرنل تجمل حسین نے اعزازی طور پر فوج کو جوائن کیا اور کشمیر کی جنگ میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ۔انہوں نے پہلی باغ بریگیڈ کی کمانڈ کی اورپونچھ کے میدان میں کشمیرکا دفاع کیا ۔بعد ازاں انہیں فخر کشمیر کا خطاب دیا گیا اور آزاد کشمیر حکومت میں انہیں سیکرٹری دفاع مقرر کیا گیا۔اس دوران انہوں نے جموں کشمیر میں سول ڈیفنس کے ادارے کی بنیاد رکھی ۔کیپٹن بلال ظفر کے پڑدادا صوبے دار لال خان نے
جنگ عظیم اوّل میں بہادری کے جوہر دکھاتے ہوئے شہادت حاصل کی جس پر انہیں ایوارڈ آف میرٹ دیا گیا ۔ جوکہ برٹش آرمی کا دوسرا بڑا ایوارڈ تھا ۔ کیپٹن بلا ل ظفراپنے دادا اور پڑدادا کیبہادری کے قصے سن کر اکثر کہا کرتا تھا کہ ایک دن وہ بھی اپنے وطن پر جان نچھاور کردے گا ۔اسکی بڑی تمنا تھی کہ وہ شہید ہو اور اسکی میت پر کوئی بین نہ ڈالے۔وہ شہید ہوا اور اسے فوج نے تمغہ بسالت عطا کیا ۔ کیپٹن بلال ظفر شہید کوآپریشن جانباز کے دوران سوات آپریشن کے دوران پیچھور روڈ کو دہشت گردوں کے کنٹرول سے نکالنے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔یہ پیچھور ویلی کا علاقہ تھا جس پر دہشت گردوں کا قبضہ تھا جس کی وجہ سے سوات آپریشن آگے نہیں بڑھ رہا تھا ۔ کیپٹن بلال ظفر شہید نے اس شاہراہ اور اس سے ملحقہ پہاڑی علاقے کو اپنے پچاس جوانوں کے ساتھ کلئیر کرایا۔پیچھور ویلی انتہائی دشوار گذاراور خطرناک علاقہ بن چکا تھا ۔دہشت گردوں کا جانا پہچاناعلاقہ تھا جہاں صرف فوج کے کمانڈوز ہی آپریشن کرنے میں مہارت رکھتے تھے ۔اس میں غاریں اور کھائیاں ایسی تھیں جہاں دشمن کیموفلاج کرتا تھا ۔ایسے مشکل ترین علاقے میں کھانا پینا اور سونا ناممکن تھا ،
آرام کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی لیکن اس علاقے کو کیپٹن بلال ظفر نے کلئیر کراتے ہوئے اس وقت اپنی جان اللہ کے سپرد کردی جب دشمن نے راکٹ لانچر سے ایک راکٹ اس کے سینے پر چھوڑدیاتھا۔ بلال ظفر شہید کی والدہ جنہیں وہ پیار سے ماں جی کہا کرتا تھا جب انہیں شہیدوں کی ماوں کے ساتھ ٹی وی پروگرام میں مدعو کیا گیا تو انہوں نے اپنے بیٹے کی شہادت اور اپنے بیٹے کی باتوں کو جس بہادری اور حوصلے سے بیان کیا ،یہ کسی عام ماں کے بس کی بات نہیں ۔سفید چادر میں پروقار اور گھمبیر لہجے میں ڈائس پر کھڑی ماں جی کہہ رہی تھیں ۔میرے بلال نے آپریشن پر جانے سے تین دن پہلے مجھ سے ملاقات کی تھی۔ایک دن جب وہ میرے پاس بیٹھا ہوا تھا ،مسکر پوچھنے لگا ’’ ماں جی آپ کو کیسی موت اچھی لگتی ہے۔ میں نے کہا ’’ موت بھی کسی کو اچھی لگتی ہے۔ بولا’’ ماں جی میں تو ویسے ہی پوچھ رہا ہوں۔ ۔۔ پھر ایک دم اٹھ کھڑا ہوا اور گیٹ کی طرف منہ کرکے بولا’’ ماں جی فرض کریں ،ایک دن یہ گیٹ کھلے اور فوج کے دوافسر اندر آئیں اور آپ کو زوردار سلیوٹ کریں
اور کہیں ماں جی آپ کو بہت بہت مبارک ہو،آپ کا بیٹا شہید ہوگیا ہے ۔تو آپ کو کیسے لگے گا کہ وہ کہیں ماں جی ہم آپ کے بیٹے کی لاش پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر لائے ہیں ‘‘میں نے کہا ’’ بیٹا کیسی باتیں کرتے ہو۔ کہنے لگا ’’ ماں جی میرے لئے دعا کریں۔ میں نے کہا ’’ بیٹا میں نے تو تمہیں اسی دن اللہ کے سپرد کردیا تھا جب نے تم خاکی وردی پہنی تھی۔ پھر بولا ’’ ماں جی میرے لئے عزت کی دعا کریں۔ میں نے کہا’’ اللہ تمہیں اپنی امان میں رکھے۔ میرا بہادر بیٹا جب آپریشن پر گیا تو اپنے پچاس سپاہیوں کے ساتھ تھا ۔یہ بہت ہی مشکل آپریشن تھا ۔اسے زانو سر کی چوٹی سر کرنی تھی۔وہ فاتحانہ جوش کے ساتھ آگے ہی بڑھتا چلا گیا ۔دس دن کی مشقت کے بعد اس نے وہ چوٹی فتح کی ۔یہ وہ جگہ تھی جہاں پاک فوج رکی ہوئی تھی اور دہشت گرد انہیں آگے بڑھنے نہیں دیتے تھے ۔میرے شیر بیٹے نے اس چوٹی کو فتح کیا اور اس پر پاکستانی پرچم لہرادیا۔اب اس چوٹی کو کیپٹن بلال ظفر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔یہ چوٹی رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی ۔
میرے بیٹے بلال ظفر نے چوٹی فتح کرلی تو اس دوران ایک پتھر کی اوٹ میں چھپے دہشت گرد نے راکٹ میرے بیٹے کے سینے پر مارا ،میرے بیٹے نے مسکراتے ہوئے موت کا منہ چوم لیا،میں نے جب اپنے بیٹے کی شہادت کی خبر سنی تو میرا سر فخر سے بلند ہوگیا ۔ میں نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا’’ میرے پاک پروردگار تیرا لاکھ لاکھ شکر تونے میرے بیٹے کی خواہش پوری کی‘‘میرے بیٹے تجھے سلام ۔وہ کہتا تھا’’ ماں جی گولی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔جب لگے گا گولا ہی لگے گا‘‘ اسکی یہ خواہش بھی پوری ہوئی۔ میری جیسی ہزاروں مائیں ہیں جنہیں میں کہوں گی کہ وہ ہمت رکھیں ،حوصلہ رکھیں۔ہمارے پاس ایک بلال نہیں ہزاروں بلال ہیں۔اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہر ماں کو ایک بلال دے۔اور پھر جب ایک کی جگہ دس ہزار بلال سر پر کفن باندھ کر سرحد کی جانب دوڑ پڑیں گے تو دہشت گرد کیا،دنیا کی کوئی طاقت انہیں روک نہ سکے گی ۔میرے وطن پر کوئی ناپاک قدم نہ رکھ سکے گا۔بے شک ہمارے بہادر فوجیوں کی مائیں کیپٹن بلال ظفر شہیدکی ماں جی جیسی ہوتی ہیں جو اپنے پاکیزہ دودھ سے ایسے جوانوں کو پروان چڑھاکر وطن کی مانگ سنوارتی ہیں۔کیپٹن بلال ظفر کو انکے آبائی گاوں کہروڑ کوٹلی ستیاں میں دفن کیا گیاتھا ۔