کراچی; سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو نقیب اللہ محسود اور دیگر کے اغواء برائے تاوان اور قتل کیس میں ضمانت مل گئی۔ انسداد دہشت گردی عدالت نے 10 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دے دیا۔ راؤ انوار کو سخت سیکیورٹی میں عدالت میں پیش کیا گیا۔
غیر قانونی اسلحے کے حوالے سے کیس میں ضمانت کا فیصلہ بعد میں ہو گا۔ اس کے بعد ہی رہائی ممکن ہو سکے گی۔ قتل کیس میں ضمانت کا فیصلہ عدالت نے 5 جولائی کو محفوظ کرلیا تھا۔عدالت نے راؤ انوار کے خلاف دوسرے مقدمے میں 16 جولائی تک دلائل طلب کرلیے ۔ منگل کو سماعت کے موقع پر سابق ڈی ایس پی قمر احمد کو بھی پیش کیا گیا۔ تفتیشی افسر کے پیش نہ ہونے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ تفتیشی افسر ڈاکٹر رضوان پیش ہوتے تو جیوفینسنگ پر دلائل سن لیتے ۔ عدالت نے کہا کہ آئندہ سماعت پر تفتیشی افسر پیش نہ ہوئے تو سخت کارروائی کی جائے گی۔ عدالت نے سابق ڈی ایس پی قمر احمد اور خضر حیات کی ضمانت کی درخواست پر بھی 16 جولائی کو دلائل طلب کیے ۔ مزید سماعت 27 جولائی کو ہوگی۔ عدالتی فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے راؤ انوار نے کہا کہ میں قصوروار نہیں، مجھے اس کیس میں پھنسایا گیا ہے ۔
واضح رہے کہ راؤ انوار نے کئی ماہ کی روپوشی کے بعد رواں سال 21 مارچ کو خود کو اسلام آباد میں سپریم کورٹ میں پیش کیا تھا، جہاں انھیں گرفتاری کے بعد کراچی پہنچایا گیا تھا، اس سے قبل انسداد دہشت گردی کی عدالت راؤ انوار کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر چکی تھی، پولیس حکام راؤ انوار کو گرفتار کرنے میں ناکام رہے تھے۔سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کو شاہ لطیف ٹاؤن کے علاقے عثمان خاصخیلی گوٹھ میں ایک مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور ان کا تعلق تحریک طالبان سے بتایا تھا۔نقیب اللہ محسود کی بے گناہی پر سوشل میڈیا پر بحث اور محسود قبائل کے احتجاج کا عدالت نے نوٹس لیا اور راؤ انوار پر قتل کا مقدمہ درج کیا گیا۔نقیب اللہ محسود کے والد محمد خان محسود نے ایف آئی آر میں بتایا تھا کہ تین جنوری کو مبینہ طور پر راؤ انوار کے سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار ان کے بیٹے نقیب اللہ اور دیگر دو افراد حضرت علی اور قاسم کو اٹھاکر لے گئے بعد میں چھ جنوری کی شب حضرت علی اور قاسم کو سپر ہائی وے پر چھوڑ دیا لیکن راؤ انوار نے نقیب اللہ کو قید رکھا اور اس کے موبائل فون بھی بند کردیا۔
ایف آئی آر کے مطابق نقیب اللہ کے رشتے دار اس کی تلاش کرتے رہے لیکن معلوم نہیں ہوا۔ ان کے والد نے ایف آئی آر میں کہا کہ 17 جنوری کو ٹی وی اور اخبارات سے انھیں معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے کو راؤ انوار اور اس کے اہلکاروں نے جعلی مقابلے میں ہلاک کردیا۔ ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی کی بھی دفعات شامل کی گئی تھیں۔نقیب اللہ محسود کے اہلخانہ اور قریبی ساتھیوں نے اس دعوے کو مسترد کیا تھا اور کہا تھا کہ ان کا کسی شدت پسند تنظیم سے کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ کراچی میں محنت مزدوری کرتے تھے اور ماڈلنگ کے شعبے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ بعد میں نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی ثنا اللہ عباسی نے بھی قرار دیا تھا کہ انھیں ’جعلی‘ پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا ہے۔سہراب گوٹھ کے علاقے میں کئی روز جاری احتجاج کے دوران ہی مشتون تحفظ موومنٹ نے جنم لیا، اسی احتجاج کو پہلی بار منظور پشتین نے خطاب کیا اور لاپتہ پشتون نوجوانوں کی بازیابی کی تحریک کا آغاز کیا۔