ممبئی (ویب ڈیسک ) ہالی ووڈ میں کئی بڑے اداکاروں اور پروڈیوسز کے بھیانک چہرے بے نقاب کرنے کے بعد ’ می ٹو‘ مہم نے بھارت کا رخ کرلیا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک نیا نام سامنے آرہا ہے۔ یہ مہم اس وقت شروع ہوئی جب اداکارہ تنوشری دتا نے نانا پاٹیکر پر جنسی ہراسانی کا الزام عائد کیاجس کے بعد بالی ووڈ کے ’بابوجی‘ الوک ناتھ اس مہم کا نشانہ بنے ۔ اب تک ساجد خان، پیوش مشرا سمیت دیگر اداکاروں ، پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز پر جنسی ہراسگی اور زیادتیوں کے الزامات لگ چکے ہیں لیکن اب اس میں تازہ اضافہ کھل نائیک اور تال جیسی بلاک بسٹر فلمیں دینے والے ڈائریکٹر سبھاش گھئی کے نام کا ہے جن پر انہی کی ایک خاتون ملازم نے جنسی زیادتی کا الزام عائد کیا ہے۔خاتون نے بتایا’یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں فلم انڈسٹری میں نئی نئی آئی تھی اور سبھاش گھئی کے ساتھ ایک فلم میں کام کر رہی تھی ۔ سبھاش گھئی نے مجھے کہا کہ وہ انڈسٹری میں میری سرپرستی کریں گے ، یہ بات مجھے انتہائی معقول لگی کیونکہ انڈسٹری میں گاڈ فادر کی ضرورت ہوتی ہے اور یہاں نہ تو میرے دوست تھے اور نہ ہی کوئی سرپرست ہی تھا۔میں سبھاش گھئی کے ساتھ کام کرنے لگی ، شروع میں وہ مجھے میوزک کی ریکارڈنگ کیلئے سٹوڈیو لے جاتے جہاں دوسرے مرد بھی موجود ہوتے اور ہم رات دیر تک کام کرتے رہتے ، اس دوران کبھی مجھے کسی نے کچھ نہیں کہا ۔ جب مجھے تاخیر ہوجاتی تو اکثر رکشہ لے کر گھر چلی جاتی یا سبھاش گھئی مجھے اپنی گاڑی میں بٹھا کر چھوڑ آتے۔ آہستہ آہستہ سبھاش گھئی نے میری رانوں پر ہاتھ مارنا اور شاباش دینے کیلئے زور سے گلے لگانا شروع کیا لیکن پھر ایک دن انہوں نے مجھے اپنے اس فلیٹ میں بلایا جہاں بیٹھ کر وہ فلموں کے سکرپٹ لکھا کرتے تھے۔میں وہاں پہنچی تو وہاں کوئی نہیں تھا، انہوں نے مجھے فلیٹ کے بارے میں بتانا شروع کیا اور پھر اپنی زندگی کے دکھڑے سنانے لگے اور میری گود میں سر رکھ کر رونے لگے ، اسی دوران انہوں نے زبردستی میرا بوسہ بھی لے لیا۔ اس حرکت کے بعد میںفوری طور پر وہاں سے نکل کر گھر چلی گئی، اگلے دن میوزک سٹوڈیو میں پہنچی تو کام کی زیادی کی وجہ سے بہت دیر ہوگئی ، اس دوران سبھاش گھئی نے شراب پی جبکہ مجھے بھی ایک گلاس دیا گیا جس میں نشہ ملا ہوا تھا ، یہ گلاس پیتے ہی میں مدہوش ہوگئی جس کے بعد سبھاش نے اپنے ڈرائیور بابو کے ساتھ مل کر مجھے اپنی گاڑی میں ڈالا اور فریاس ہوٹل لے گیا جہاں ایک سوئٹ اس بڑے ڈائریکٹر کیلئے مستقل طور پر بک رہتا تھا۔ جب ہم کمرے میں پہنچے تو میں ہوش میں نہیں تھی لیکن مجھے سب نظر آرہا تھا۔ سبھاش گھئی نے میری جینز اتاری اور پھر ۔۔۔میں چیخنا چاہتی تھی لیکن اس نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ جب میں صبح اٹھی تو وہ ناشتہ کر رہا تھا اور جب میری اطراف میں نظر پڑی تو مجھے صوفے سرخ نظر آئے۔اس واقعے کے بعد میں نے جیسے تیسے کرکے مہینہ مکمل کیا اور نوکری سے استعفیٰ دے دیا۔خاتون نے اپنے بچوں کی قسم اٹھا کر بتایا کہ وہ اپنا نام نہیں دینا چاہتی کیونکہ اس کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور وہ نہیں چاہتی کہ اس کے والدین یا بچوں کو اس واقعہ کا پتا چلنے پر ندامت کا سامنا کرنا پڑے۔