اس ملک میں فی الوقت اگر کوئی شے سب سے زیادہ شفاف اور جمہوری ہے تو وہ بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد ہے۔دو برس پہلے اسے جمہوری انداز میں تمام سرکردہ سیاسی جماعتوں اور متعلقہ اداروں کی رضامندی اور تائید سے اختیار کیا گیا۔مگر منظوری دینے اور عمل درآمد کروانے والے شائد آنکھوں سے پٹی اتارنا بھول گئے لہذا اب جس کی پہنچ ، ٹٹول اور سمجھ میں بدامنی اور انتشار کا ہاتھی جتنا آ رہا ہے بس اتنا ہی ہے۔کوئی سونڈ سے جھول رہا ہے ، کسی کو ٹانگیں پورا ہاتھی لگ رہی ہیں اور کوئی پیٹ پر ہاتھ پھیر کے ہی مکمل ہاتھی سمجھ رہا ہے۔
دو برس بعد بھی یہ طے نہیں ہو پا رہا کہ فرقہ ورانہ شدت پسندانہ سوچ اور دہشت گردی میں کیا فرق اور رشتہ ہے۔یہ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کونسی تنظیمیں قومی سلامتی کی تعریف میں مکمل حرام، نیم حرام ، مکروہ اور حلال ہیں اور جانے کونسی تنظیم یا گروہ یا سوچ کل تک حلال تھی اور پھر کیوں حرام اور پھر حرام سے نیم حلال ہو گئی اور آج جو حرام ہے جانے کل اسے بدلتے تقاضوں کی مجبوری میں دوبارہ حلال نہ قرار دینا پڑ جائے۔
تقریباً یہی حکمتِ عملی میری نانی مرحومہ کی بھی ہوا کرتی تھی۔وہ گھر کا کاٹھ کباڑ ، متروک فرنیچر ، غیر استعمال شدہ اینٹیں حتیٰ کہ ٹوٹی ہوئی سائیکل بھی پھینکنے یا کباڑی کو بیچنے نہیں دیتی تھیں۔جانے کب کس شے کی ضرورت پڑ جائے۔
آپ کسی بھی ملک کی انسدادِ تشددحکمتِ عملی پر غور فرما لیں۔عام طور پر اس کی کامیابی و ناکامی سے قطع نظر حساس و کلیدی تفصیلات طشت ازبام کیے بغیر اس حکمتِ عملی پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔حوالے کے لیے دیکھئے چیچنیا کے بارے میں روسی حکمتِ عملی یا تامل علیحدگی پسندی سے نمٹنے کے بارے میں سری لنکا سرکار کی اسٹرٹیجی یا دہشت گرد گروہوں پر اندرونِ ملک نگاہ رکھنے اور ان کا قلع قمع کرنے کی ایرانی و سعودی حکمتِ عملی یا پھر امریکا میں ہوم لینڈ سیکیورٹی کا ایکشن پلان۔
مگر ہمارے ہاں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد اس قدر شفاف اور جمہوری ہے کہ شدت پسند تنطیموں اور ’’ شائد کل پھر کام آجائیں ‘‘ کی بنیاد پر متحرک گروہوں کو بھی اعتماد میں لے کر آگے بڑھا جا رہا ہے۔اس بابت مرکز اور صوبوں میں جو اختلافات ہیں ان کی دھلائی بھی چوک پر ہو رہی ہے تاکہ دوست دشمن کسی کے دل میں یہ خلش نہ رہے کہ اس سے کچھ چھپایا گیا۔
مثلاً سندھ اور مرکز کے درمیان تازہ دھوبی پٹکوں کو ہی ملاحظہ کر لیجیے۔سندھ کے کسی سست اور غبی بیورو کریٹ نے وفاقی وزارتِ داخلہ کو چورانونے مدارس پر پابندی لگانے یا کالعدم قرار دینے کے لیے خط لکھا۔بقول وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان اس فہرست میں سندھ کے علاوہ دیگر صوبوں کے مدارس بھی شامل ہیں۔حتی کہ ان کے نام پتے بھی درست نہیں۔بقول وزیرِ داخلہ شائد حکومتِ سندھ نے نیشنل ایکشن پلان اور اس کے تحت صوبوں کی ذمے داریوں کا ٹھیک سے مطالعہ نہیں کیا۔بقول وزیرِ داخلہ حکومتِ سندھ نے یہ خط بھیجتے ہی اس پر میڈیا میں تبصرے شروع کر دیے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر حکومتِ سندھ نے اتنی ساری اغلاط کی تھیں تو وزیرِ داخلہ ایک جوابی خط میڈیا کو اعتماد میں لیے بغیر کراچی بھیج دیتے کہ اس طرح کھلے عام بات نہیں کرتے، آپ مجھ سے چیمبر میں آ کر بات کرلیں تاکہ جو کچھ بھی طے ہو وہ کم ازکم انھیں پتہ نہ چلے کہ جن کے خلاف ایکشن لینا مقصود ہو۔اس کے بجائے وزیرِ داخلہ نے بھی شفافیت سے کام لیا اور اپنا ردِ عمل براہِ راست بند لفافے میں بھیجنے کے بجائے میڈیا کے ذریعے حکومتِ سندھ کے گوش گذار کر کے اپنے فرائضِ مننصبی نبھانے میں کوئی فالتو کسر بھی نہ اٹھا رکھی۔
یہی شفافیت ہمارے پیارے وزیرِ داخلہ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی کوئٹہ رپورٹ میں خود پر اور وزارتِ داخلہ کی کارکردگی پر اٹھائے گئے سنگین سوالات کا جواب دینے کے لیے بھی اختیار کی اور بھری پریس کانفرنس میں اپنا ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ وہ رپورٹ میں اٹھائے گئے سوالات کا سپریم کورٹ میں جواب دیں گے۔پھر شائد انھیں خیال آیا ہو کہ جب میڈیا کیذریعے جواب دے دیا ہے تو سپریم کورٹ کے آنرایبل ججوں نے بھی یہ جواب اخبارات اور چینلز کے ذریعے دیکھ لیا ہوگا۔لہذا عدالت کے روبرو جسٹس عیسیٰ رپورٹ چیلنج کرنا عدالت کا قیمتی وقت ضایع کرنے کے مترادف ہوگا۔
واضح رہے کہ جسٹس عیسیٰ کوئی وفاقی سیکریٹری نہیں سپریم کورٹ کے ایک قابلِ قدر جج ہیں۔مگر وزیرِ داخلہ بھی کوئی معمولی آدمی نہیں کہ جن کے منہ سے سوتے میں بھی یہ نکل جائے کہ یور آنر آپ کی آبزرویشنز اور سفارشات سر آنکھوں پر۔میں اور میری وزارت ان سفارشات کی روشنی میں اپنی کارکردگی کو بہتر اور موثر بنانے کی کوشش کریں گے۔ آپ کی گرانقدر رہنمائی کا شکریہ۔وزیرِ داخلہ یقیناً یہ سب کہتے اگر وہ بھارت ، برطانیہ یا ہالینڈ وغیرہ کے وزیرِ داخلہ ہوتے۔اگر وہاں کے ہوتے تو استعفیٰ کی بھی پیش کش کرتے مگر پاکستان پاکستان ہے بھارت ، برطانیہ یا ہالینڈ تو نہیں۔ یہاں تو دنیا کے چار بلند ترین پہاڑی سلسلے ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔یعنی ہمالیہ ، قراقرم ، کوہِ ہندو کش اور کوہِ انا…
نیشنل ایکشن پلان میں دہشت گرد گروہوں سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ فرقہ واریت اور شدت پسندانہ سوچ کے دھارے کو اعتدال پسندی اور یگانگت کے فروغ سے بدلنے کے لیے حکمتِ عملی وضع کرنے اور اس پر عمل درآمد کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔مگر اس ہفتے کے شروع میں وزیرِ داخلہ نے سینیٹ کے فلور پر جو بیان دیا اس سے دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوگیا۔فرمایا کہ فرقہ واریت تو تیرہ سو برس پرانا مسئلہ ہے۔لہذا اسے دہشت گردی سے جوڑنا مناسب نہیں۔وہ دراصل اس الزام کی صفائی دے رہے تھے کہ کالعدم فرقہ وارانہ تنظیموں کے رہنما ان سے کیسے ملاقات کر لیتے ہیں۔
اس وضاحت سے اور کوئی مطمئن ہو نہ ہو میں تو پوری طرح مطمئن ہوں۔فرقہ واریت دراصل دہشت گردی کو نہیں بھائی چارے اور یگانگت کو فروغ دیتی ہے۔گالیاں کسی غیر کو تھوڑا دی جاتی ہیں، اپنوں کو ہی دی جاتی ہیں۔اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ دشنام طراز کی نیت پر شبہہ کرنے لگیں۔دور سے ایسا لگتا ہے کہ فرقے باز ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں۔لیکن ذرا وزیرِ داخلہ کی آنکھ سے دیکھئے۔وہ گھتم گھتا تھوڑا ہوتے ہیں وہ تو ایک دوسرے کو جپھیاں ڈال رہے ہوتے ہیں اور جپھی کسی غیر کو تو نہیں ڈالی جاتی۔اگر کچھ شارٹ ٹمپرڈ فرقہ پرست کسی غلط فہمی میں بندوق اٹھا کے سامنے والے کو مار دیں یا کسی اور کو قتل و غارت کی راہ پر لگا دیں تو بجائے یہ کہ انھیں دہشت گردوں کا نظریاتی ہم جولی سمجھ لیا جائے انھیں پاس بٹھا کر چائے بسکٹ رکھ کے غلط فہمی دور کرنی چاہیے۔اور رواداری کسے کہتے ہیں؟ وہ بھی تو مسلمان ہیں ، پاکستانی ہیں۔کوئی غیر تھوڑا ہیں۔
دو برس سے نافذ نیشنل ایکشن پلان کے تحت قانون نافذ کرنے والوں کو دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے پروٹیکشن آف پاکستان ایکٹ کے تحت خصوصی اختیارات بھی حاصل ہیں۔آئین میں متفقہ اکیسویں ترمیم کے تحت دو برس کے لیے فوجی عدالتیں بھی قائم کی گئیں۔اب انھیں دوبارہ بحال کرنے کے لیے اعلی سطح پر مشورے بھی جاری ہیں۔یہ بات بھی درست ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر جس حد تک بھی عمل ہو پایا اس کے سبب دہشت گردی کی وارداتوں میں ساٹھ فیصد تک کمی آئی ہے۔
امید کی جانی چاہیے کہ حالات مزید بہتر ہوں گے۔مگر پھر ایسا کیوں ہے کہ سال دو ہزار سولہ میں لگ بھگ سات سو بیس ریکارڈڈ جبری گمشدگیاں ہوئیں جو پچھلے چھ برس کے دوران کسی بھی ایک سال میں سب سے زیادہ ہیں۔کیا فوجی عدالتوں اور دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کے ہوتے اتنی جبری گمشدگیوں کی ضرورت تھی۔اگر کوئی دہشت گرد یا سہولت کار ہے تو پھر اسے باقاعدہ حراست میں لے کر خصوصی یا عمومی عدالت کے روبرو پیش کرنے میں کیا آئینی یا اخلاقی اڑچن ہے ؟
یہیں سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا دہشت گردی سے نمٹنے کے معاملات پوری طرح سے ریاست اور حکومت کے کنٹرول میں ہیں ؟ کیا نیشنل ایکشن پلان میں یہ بھی درج ہے کہ جس کے پاس سے کلاشنکوف کے بجائے خود سر قلم یا مشکوک کی بورڈ برآمد ہوا اس سے بھی اعلانیہ یا غیر اعلانیہ قرار واقعی نمٹا جائے گا ؟ اگر ایسا نہیں تو گمشدہ بلاگرز کو کب کسی عدالت میں پیش کر کے ان پر قانون کے مطابق فردِ جرم عائد ہو گی ؟
اس سے یاد آیا کہ ہر دور کی اسٹیبلشمنٹ ایک گرانقدر کام یہ بھی انجام دیتی ہے کہ ہم جیسے لوگ حبیب جالب کو بھولنا بھی چاہیں تو وہ یاد دلاتی رہتی ہے۔
بولتے جو چند ہیں سب یہ شرپسند ہیں
ان کی کھینچ لے زباں ان کا گھونٹ دے گلا
میں نے اس سے یہ کہا۔