’’لاڈلی زینب، بی بی زینبؓ کی بانہوں میں ہے، جنہوں نے اسے سینے سے چمٹایا ہوا ہے۔ وہ بہت خوش ہے اور درود شریف پڑھ رہی ہے۔ اس کے ساتھ اور بھی بچیاں ہیں۔ ساڑھے چار سالہ ایمان فاطمہ، گیارہ سالہ فوزیہ، سات سالہ نور فاطمہ، ساڑھے پانچ سالہ عائشہ آصف، نو سالہ لائبہ، سات سالہ ثناعمر، پانچ سالہ کائنات بتول… سب جنت میں کھیل رہی ہیں، نئے کپڑے پہنے ہوئے۔‘‘
آج شام ہی سے آپی کا دل بے چین تھا۔ ایک بے کلی سی تھی جبکہ ماحول پر بھی اداسی چھائی ہوئی تھی۔ معمول کی طرح وہ رات کے کھانے کی تیاری کررہی تھیں کہ ننھی پری سلام کرکے کچن میں داخل ہوئی۔ اسے دیکھ کر آپا یک لخت اپنی ساری الجھنیں بھلا بیٹھیں اور خوشی کی لہر ان کے چہرے پر دوڑ گئی۔ فرط محبت سے انہوں نے اسے سینے سے لگالیا۔ وہ تھی ہی اتنی پیاری۔ گھر بھر کی لاڈلی۔ امی ابو کی آنکھوں کا تارا۔ بھائی تو اس پر جان چھڑکتے تھے۔ اس کی پیاری پیاری باتیں اور من موہنی سی صورت ہر کسی کا دل موہ لیتی۔
گھر کیا، پورا خاندان اس کا دیوانہ تھا۔ کلاس کے سبھی بچوں سے اس کی دوستی تھی۔ ٹیچر اس کی تعریفیں کرتے نہ تھکتے۔ اسکول سے گھر آکر اس کی مزے مزے کی باتوں کو سب لوگ خوب انجوائے کرتے۔ وہ کہتی، میں بہت پڑھوں گی اور تعلیم حاصل کرکے لوگوں کی خدمت کروں گی۔ ابھی اس کی عمر ہی کیا تھی، لیکن اسے بہت ساری سورتیں اور چاروں کلمے یاد ہوگئے تھے جبکہ پانچواں کلمہ ابھی وہ یاد کررہی تھی۔
گھر میں اس کی درود پاک پڑھنے کی میٹھی آواز گونجتی رہتی تھی۔ مارنا تو دور کی بات، امی ابو نے تو اسے کبھی پھولوں کی چھڑی سے بھی نہیں چھوا تھا۔ مجال تھی کہ کوئی اسے چپت بھی لگادے۔ وہ دلوں کی شہزادی جو تھی۔ لیکن انہیں کیا خبر تھی کہ درد سے ناآشنا، اِن کی لاڈلی کتنی تکلیف سے گزرے گی۔ اس محبت بھرے گھرانے پر کیا قیامت ٹوٹے گی اور کتنی سخت آزمائش آئے گی۔ مستقبل سے بے خبر والدین عمرے پر روانہ ہوگئے اور بہن بھائیوں کو ننھی پری کا خیال رکھنے کی خاص تاکید کرگئے۔
6 جنوری کی اس تاریک شب اس نے آپا کو سلام کرکے ٹیوشن جانے کی اجازت لی۔ آپا کے چہرے پر فکرمندی کے آثار چھاگئے۔ شہر کے حالات ٹھیک نہ تھے۔ بابا بلھے شاہ کے شہر پر آسیب کے سائے گہرے ہوگئے اور آئے روز لرزا دینے والی خبریں سامنے آرہی تھی۔ جگنوؤں کا گلا گھونٹا جارہا تھا اور کلیوں کو مسلا جارہا تھا۔
گھر سے ٹیوشن کا فاصلہ ہی کتنا تھا۔ بس ایک گلی چھوڑ کر برابر والی گلی۔ ننھی پری روزانہ ہی تو ٹیوشن جاتی تھی۔ لیکن کچھ تھا جو آپا کو اندر سے بے چین کررہا تھا۔ چھٹی حس بار بار خطرے کی گھنٹی بجارہی تھی۔ آپا نے کہا کہ زینب آج نہ جاؤ، چھٹی کرلو۔ امی ابو بھی تو نہیں ہیں؛ تو ننھی پری بولی، آج کیوں منع کررہی ہیں؟
آپی نے کہا کہ بس بیٹا! میرا جی گھبرا رہا ہے۔ پری بولی، آپی روزانہ تو جاتی ہوں؛ تو آپی نے بادل نخواستہ جانے کی اجازت دے دی اور زینب ہمیشہ ہمیشہ کےلیے چلی گئی۔
ٹیوشن کا وقت ختم ہوا تو آپی، زینب کا انتظار کرنے لگیں۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا، آپی کی پریشانی اور گھبراہٹ میں اضافہ ہوتا گیا۔ بالآخر صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو انہوں نے برقعہ سر پر ڈالا اور بھاگی بھاگی ٹیوشن پہنچیں۔ باجی سے کہا کہ زینب کو بھیج دیجیے، آج بہت دیر لگادی۔ ٹیوشن والی باجی حیران پریشان ہو کر بولیں، لیکن زینب تو آج آئی ہی نہیں۔
یہ الفاظ کسی بم کی طرح آپی کے سر پر پھٹے۔ یک دم دماغ ماؤف ہوگیا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کیا ہوا؟ باجی نے انہیں پانی پلایا تو آپی پوری طاقت مجتمع کرکے بمشکل بولیں کہ زینب تو دو گھنٹے پہلے آپ کے پاس ٹیوشن پڑھنے گئی تھی۔
لرزتے کانپتے ہاتھوں سے موبائل نکال کر بھائی کو فون کیا اور روتے ہوئے بولیں، بھائی! زینب کھوگئی۔ بھائی دیوانہ وار گھر پہنچے اور ننھی پری کو ڈھونڈنے گھر سے باہر نکل گئے۔ کچھ دوست اور رشتے دار بھی ساتھ ہوگئے۔ محلے کی ایک ایک گلی اور چپہ چپہ چھان مارا۔ زینب کی ساری سہیلیوں کے دروازے کھٹکٹادیئے لیکن سب نے نفی میں جواب دیا کہ زینب تو یہاں نہیں آئی۔ بھائی تھکے ہارے دل برداشتہ، تھانے پہنچے جہاں ایک مکروہ صورت تھانیدار بیٹھا تھا جس نے ہتھوڑا مار لہجے میں پوچھا: ہاں بھئی! کیا ہوگیا؟
جی سر! میری بہن لاپتا ہوگئی ہے۔
تو میں کیا کروں بھئی؟
میری بہن کو ڈھونڈیئے۔
کیا پورے علاقے کی سیکیورٹی چھوڑ کر تمہاری چھوٹی بہن کو ڈھونڈنے لگ جاؤں؟ کوئی اور کام نہیں ہے پولیس کے پاس؟
بھائی بولا: دیکھیے جی، آپ سمجھے کی کوشش کیجئے، یہ سنگین معاملہ ہے ۔ میری 7 سال کی چھوٹی بہن ہے۔ ہر جگہ دیکھ لیا، کوئی پتا نہیں چل رہا۔ شہر میں 11 بچے لاپتا ہوچکے ہیں جن کی لاشیں ہی ملی ہیں۔ آپ سمجھ کیوں نہیں رہے؟ کارروائی کریں!
اچھا اچھا! پولیس کو زیادہ سمجھانے کی کوشش نہ کرو۔ ہمیں سب پتا ہے۔ جاؤ جاکر کچی رپٹ لکھواؤ… اور سنو! چائے پانی دے کر جانا!
میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں، پلیز میرے ساتھ موبائل بھیج دیں اور بچی کو ڈھونڈیں۔ شہر سے لاپتا ہونے والی یہ 12 ویں بچی ہے اور آپ لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہیں۔ کوئی گرفتار نہیں ہوا۔ کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
تھانیدار جھلا کر بولا: اوئے میں نے کہا ناں! جاؤ جاکر رپٹ لکھوادو۔ مجھے قانون نہ سمجھاؤ۔ ہم بے وقوف ہیں؟ نااہل ہیں؟ کوئی حالات والات خراب نہیں۔ شہر میں سب ٹھیک چل رہا ہے۔ کیا پولیس کا یہی کام رہ گیا ہے کہ بچے ڈھونڈتی پھرے۔ یہ والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ بچوں کا خیال رکھیں، پولیس کی نہیں۔ جاؤ جاکر اپنا کام کرو۔ رپٹ لکھوانی ہے تو لکھواؤ ورنہ دفع ہوجاؤ!
بھائی خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا اور رپورٹ لکھوا کر چلا آیا۔ گھر میں داخل ہوا تو بہت رات بیت چکی تھی۔ روتی ہوئی بہن نے جلدی سے پوچھا: بھائی! زینب کا پتا چلا؟
بھائی کے حلق میں گویا آنسوؤں کا گولا پھنس گیا اور کچھ بولنے کے بجائے وہ سر جھکا کر زمین پر ڈھے گیا۔ بار بار ننھی زینب کا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے آرہا تھا۔
کسی نے کھانا سامنے لاکر رکھ دیا، بھائی نے لقمہ لیا تو گلے میں اٹک گیا اور زینب کی صورت ایک بار پھر آنکھوں کے سامنے آگئی۔ گلے میں کانٹے پڑگئے۔ آپی تو حال سے بے حال تھیں۔ وہ رات اس گھرانے نے کانٹوں پر لوٹتے گزاری۔ نہ جانے زینب کس حال میں ہوگی؟ یہی سوچ سوچ کر سب کا سر درد سے پھٹ رہا تھا۔ آپی خود کو کوسنے دے رہی تھیں کہ کاش میں اپنی بچی کو روک لیتی۔ جانے نہ دیتی۔ میری بچی، میری زینب۔ امی ابو کو کیا منہ دکھاؤں گی؟
صبح نئے سرے سے زینب کی تلاش شروع ہوئی۔ رشتے داروں کو بھی بلالیا گیا۔ خالو، ماموں، پھوپھا، سبھی آگئے۔ تلاش کا دائرہ محلے سے باہر تک وسیع کردیا گیا۔ شام ہوگئی لیکن زینب نہ ملی۔ امی ابو سے بات کب تک چھپائی جاتی۔ سعودیہ سے فون آیا، ابو نے کہا کہ زینب سے بات کراؤ تو آپی اپنے لہجے پر قابو پانے کی کوشش میں ناکام ہوگئیں۔ ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور دھاڑیں مار مار کر رو پڑیں۔ بھائی نے ان کے ہاتھ سے فون لیا اور بتایا، ابو! زینب کھوگئی ہے۔ ابو آپ تو مکّہ میں ہیں، دعا کیجیے کہ زینب مل جائے۔
بیٹی کی گمشدگی کی روح فرسا خبر والدین پر بجلی بن کر گری۔ وہ تین دن تک مسلسل رو رو کر دعائیں کرتے رہے کہ ہماری بیٹی ہمیں واپس دے دے۔ لیکن شاید خدا کو ان کی سخت آزمائش مطلوب تھی۔ جس کا ایمان جتنا پختہ، اس کی آزمائش بھی اتنی ہی سخت۔
اُدھر بہن بھائیوں اور رشتے داروں نے زینب کی تلاش میں دن رات ایک کردیئے لیکن بچی نہ مل سکی۔ گلی میں لگے کیمروں سے ایک ویڈیو ملی جس میں بچی ایک نامعلوم شخص کا ہاتھ تھامے، ساتھ جاتی نظر آئی۔ خدا جانے اس نے کیا سفلی عمل کردیا، چیز دلانے کا جھانسہ دیا؟ کوئی پتا پوچھنے کا بہانہ بنایا؟ کیا وہ کوئی جاننے والا تھا جس نے زینب کو امی ابو کے عمرے سے واپس آنے کا جھانسہ دیا؟ کون تھا وہ بدبخت، وہ ملعون، وہ رذیل شخص؟ کچھ پتا نہ چل سکا۔
ویڈیو سے کچھ امید بندھی کہ شاید اغوا کار تک پہنچنا آسان ہوجائے۔ پولیس کو اطلاع دی تو موبائل گھر آئی۔ ویڈیو دیکھنے کے بعد پولیس افسر شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ بولا: بچی آرام سے ملزم کا ہاتھ پکڑے جارہی ہے۔ شور نہیں مچا رہی۔ یہ تو کوئی قریبی رشتے دار لگتا ہے۔
بھائی کا بس نہ چلا کہ پولیس افسر کے منہ پر زوردار تھپڑ مار کر اس سے پوچھے کہ جتنے بچے اغوا ہوتے ہیں، کیا سارے رشتے دار ہی ملوث ہوتے ہیں۔
پولیس نے بچی کو ڈھونڈنے میں دلچسپی لینے کے بجائے الٹا گھروالوں کو ہی مزید پریشانی میں ڈال دیا۔ تفتیش کے نام پر بار چکر لگانے کے عوض پولیس گھر والوں سے رقم اینٹھ لیتی۔ بھائی نے پولیس پر بہت زور دیا کہ جتنی تاخیر ہوگی، بچی کا ڈھونڈنا اتنا ہی مشکل ہوتا جائے گا۔ آپی تو پھٹ پڑیں، بولیں کہ پولیس خود مجرموں سے ملی ہوئی ہے اور تھانیدار کی مرضی کے بغیر کسی علاقے میں جرم ہونا ممکن ہی نہیں۔
پھر چند روز بعد منگل کی اس وحشت بھری شب، رات کے سناٹے کو چیرتی ہوئے، فون کی گھنٹی بجی اور تھانیدار کی مکروہ آواز ابھری: کچرا کنڈی سے ایک لاش ملی ہے۔ آکر دیکھ جاؤ، کہیں تمہاری بہن تو نہیں؟ بھائی اس سے زیادہ کچھ نہ سن سکا، وہ تو خود ایک زندہ لاش بن چکا تھا۔
شہر میں کچرے کے ڈھیر سے ایک اور بچی کی لاش مل گئی تھی۔ بچی کا لاشہ یوں پڑا تھا جیسے کیچڑ میں کوئی کنول کا پھول۔
بھائی کی قریب جانے کی ہمت نہ ہوئی۔ قدم من من بھر کے ہوگئے۔ ذہن میں ناگ ڈس رہے تھے۔ دل سے دعا نکلی خدایا! یہ چہرہ اجنبی ہو۔
بھائی سے آگے بڑھا نہ گیا تو تھانیدار کی جانب مدد طلب نظروں سے دیکھا کہ سہارا دے کر آگے بڑھادے۔ لیکن پولس نے ناک پر رومال رکھ لیا۔
لرزتا کانپتا بھائی وسوسوں میں گھرا آگے بڑھا۔ جھک کر لاش سیدھی کی تو منہ سے زوردار چیخ نکل گئی۔ ٹانگوں میں جیسے جان نہ رہی۔ بھائی نے اس لاشے کو سینے سے چمٹالیا اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔ میری بچی! میری زینب!
نہ جانے کتنی ساعتیں گزر گئیں… بھائی کو کچھ یاد نہیں کہ پولیس نے کب آکر اس کی زینب کو اس کے کلیجے سے الگ کیا۔ وہ تو گرد و پیش سے بے خبر ہوش و حواس سے بیگانہ تھا۔ بس کان میں تھانیدار کی منحوس آواز پڑی۔
10 ہزار روپے دے دینا! اس پولیس والے نے تمہاری بہن ڈھونڈی ہے۔
بھائی کے حواس کام کرنا چھوڑ گئے اور وہ بے ہوش ہوگیا۔ چشم تصور میں اس نے دیکھا کہ اس کی لاڈلی زینب، بی بی زینبؓ کی بانہوں میں ہے، جنہوں نے اسے سینے سے چمٹایا ہوا ہے۔ وہ بہت خوش ہے اور درود شریف پڑھ رہی ہے۔ اس کے ساتھ اور بھی بچیاں ہیں۔ ساڑھے چار سالہ ایمان فاطمہ، گیارہ سالہ فوزیہ، سات سالہ نور فاطمہ، ساڑھے پانچ سالہ عائشہ آصف، نو سالہ لائبہ، سات سالہ ثناعمر، پانچ سالہ کائنات بتول… سب جنت میں کھیل رہی ہیں، نئے کپڑے پہنے ہوئے۔ ان کے پاس سے خوشبوئیں آرہی ہیں۔
آقا ﷺ بھی بیٹھے ہیں۔ کوئی آقاﷺ کے کندھے پر چڑھی ہے، کوئی گود میں سر رکھے ہے، کوئی پیٹھ پر سوار ہے۔ آقا ﷺ بھی کھیل رہے ہیں، بچیوں سے باتیں کررہے ہیں۔ سب خوش ہیں۔
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو
کہ ہم کو تتلیوں کے، جگنوؤں کے دیس جانا ہے
زینب بھائی کو دیکھتی ہے، پوچھتی ہے کہ روتے کیوں ہو؟ آقا ﷺ ساتھ ہیں۔
لیکن – زینب کہنے لگی – دنیا والوں کو ایک پیغام بھی دے دینا:
اگر باقی زینبوں کو بچانا ہے تو قاتل کو عبرتناک سزا دینی ہے؛ اور آقاﷺ کا نظام اس دنیا میں نافذ کرنا ہے۔